پردہ پسماندگی کی علامت ، چینی مسلم سیاستدان شوکت ایمن
24 ستمبر 2015خبر رساں ادارے روٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنکیانگ کے کمیونسٹ پارٹی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن شوکت ایمن نے ایک غیر معمولی سخت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ عورتوں کا چہرہ اور جسم چھپانے کے لیے پردہ کرنے کا عمل سنکیانگ یا کسی عرب یا مسلمان ملک کے رواجوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
بیجنگ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شکوت ایمن نے مزید کہا، ’’جو لوگ پردہ کرتے ہیں وہ یقینی طور پر قدامت پسند ہوتے ہیں اور ہم ایغور نہیں چاہتے کہ ہماری خواتین ساتھی اس طرح کا لباس پہنیں۔‘‘
شوکت ایمن کے بقول 'بہت سی خواتین کام کرنا چاہتی ہیں اور معاشرے کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتی ہیں، اس لیے پردہ کرنے پر یقینی طور پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکتا۔‘ یہ امر اہم ہے کہ حکومت نے گزشتہ برس مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں مذہبی لباس پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔ بیجنگ حکومت سنکیانگ میں تشدد کا ذمہ دار اسلام پسند باغیوں کو قرار دیتی ہے۔ وہاں حالیہ کچھ برسوں کے دوران مختلف پرتشدد واقعات کے نتیجے میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
تاہم متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں بسنے والی ایغور نسل آبادی پہلے سے ہی استحصال کا شکار ہے اور اب پردے کی ممانعت اور دیگر سخت قوانین کے نفاذ کے بعد یہ لوگ مرکزی دھارے سے مزید الگ تھلگ ہو جائیں گے۔ ایغور مسلمان سنکیانگ کو اپنے وطن قرار دیتے ہیں۔
پچھلے سال سنکیانگ کے شمال مغربی شہر کارامے میں سکارف اور پردہ کرنے والی خواتین کے علاوہ لمبی داڑھی رکھنے والے مردوں کے بسوں میں سوار ہونے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرمچی میں بھی حکام نے عوامی مقامات میں پردہ کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
ایغور روایتی طور پر اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات پر عمل کرتے تھے لیکن چینی سیکورٹی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب ان میں سے اکثر سعودی عرب یا پاکستان میں رائج اسلامی لباس اور پردہ کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
شوکت ایمن خود بھی ایک ایغور مسلمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چینی حکومت سنکیانگ میں مذہبی حقوق کی حمایت کا عزم رکھتی ہے، خاص طور پر ضروری مذہبی رسومات کے حوالے سے جیسا کہ عید اور رمضان کے روزے۔ شوکت نے مزید کہا کہ تمام لوگ مذہبی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور سنکیانگ میں عام مذہبی رسومات کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔