پشاور میں ایک اور خودکش حملہ ، پانچ افراد ہلاک
24 دسمبر 2009پشاور میں ویسے تو خودکش حملے اور بم دھماکے روز کا معمول بن چکے ہیں لیکن جمعرات کی صبح انتہائی سیکیورٹی والے علاقے پشاور چھاونی میں سیکیورٹی حصار کو توڑکر پولیس پرخودکش حملہ کیا گیا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مسلسل دہشت گردانہ حملوں کے باوجود سرحد حکومت ابھی تک ایسے واقعات کے بارے میں فوکل پرسن تعینات نہ کرسکی۔ جعمرات کے روز ہونے والے حملے کے بارے میں بھی حکومتی اداروں اور صوبائی وزراء کے مؤقف میں واضح تضاد دیکھا گیا۔ جائے حادثہ پر سب سے پہلے پہنچنے والی حکومتی شخصیت سینیرصوبائی وزیر بشیر احمد بلور کا کہنا تھا کہ دھماکے میں دو افراد ہلاک اور بیس افراد زخمی ہوے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دو خودکش حملہ آور موٹر سائیکل پر پشاور صدر کے مصروف ترین علاقے میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے خود کو دھماکے سے اڑادیا ۔
پشاور صدر سے منتخب ہونے والے اے این پی کےصوبائی وزیرعاقل شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ اس دھماکے میں ایک پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاک جبکہ پندرہ زخمی ہوئے۔
دوسری طرف ضلعی رابطہ آفیسر صاحبزادہ انیس کا کہنا تھاکہ دھماکے میں ایک اہلکار سمیت تین افراد ہلاک اور چودہ زخمی ہوئے ہیں ۔
پشاور پولیس کے سربراہ لیاقت علی خان نے پولیس اہلکارحیات اللہ سمیت تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور کا ٹاگٹ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنزکا دفتر تھا تاہم پولیس اہلکاروں نے انہیں ٹارگٹ تک پہنچنے سے روک دیا ۔
ان تمام اطلاعات کے برعکس لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مطابق اس دھماکے میں اب تک چھ افرد ہلاک جبکہ چھبیس زخمی ہیں جبکہ کئی افراد ملٹری ہسپتال میں بھی زیر علاج ہیں۔
سیکیورٹی بڑھانے کے دعووں اور دھماکوں کے بارے میں صوبائی وزرا اور سرکاری اہلکاروں کے متضاد بیانات نے عام آدمی کی پریشانی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پشاور کینٹ کے شہری کامران علی خان کا کہنا ہےکہ ایک طرف حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہےتودوسری جانب سرکاری ادارے اور ہمارے منتخب ارکان پارلیمنٹ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو عوام کے خوف میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ کامران علی کے مطابق اب توگورنر نے بھی کہہ دیا ہے کہ سال 2010ء میں حالات مزید خراب ہونگے۔ ان کے مطابق اگر حکومتی اقدات صحیح ہوتےتو دہشت گردوں کو شہری علاقوں میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا لیکن شہر کے انتہائی حساس علاقوں میں بھی دہشت گرد اپنے حدف تک پہنچ جاتے ہیں جو حکومتی پالیسیوں کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔
پشاور کے شہری ایک عرصے سے جگہ جگہ چیک پوسٹوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرہے ہیں شہر کے متعدد راستے عام آدمی کیلئے بند کئے جاچکے ہیں بعض علاقوں سے گذرنے والی گاڑیوں کو خصوصی سٹیکرز جاری کئے گئے ہیں لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود دھشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔
رپورٹ: فرید اللہ خان پشاور
ادارت : افسر اعوان