پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیجا جائے، ہالینڈ کا نیا منصوبہ؟
28 جنوری 2016یہ باتیں ہالینڈ کے ایک سرکردہ سیاستدان ڈیڈرک سام سوم نے ہالینڈ کے ایک اخبار کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہیں۔ روزنامہ فولکس کرانٹ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سام سوم نے، جو ہالینڈ کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت لیبر پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہیں، جمعرات کو کہا کہ یونانی جزائر پر پہنچنے والے تمام مہاجرین کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ ایسا مہاجرین کے ساتھ نمٹنے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے سمجھوتوں کی روشنی میں کیا جائے گا۔
اس انٹرویو میں سام سوم نے کہا کہ بدلے میں یورپی یونین کے رکن ممالک خود کو اس بات کا پابند کریں گے کہ وہ ترکی میں موجود پناہ گزینوں میں سے ہر سال ڈہائی لاکھ کو اپنے ہاں پناہ دیں گے۔ مزید یہ کہ ترکی کو ’محفوظ تیسرے ملک‘ کی حیثیت دے دی جائے گی۔
سام سوم نے اس انٹرویو میں اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ اس مجوزہ پلان کے تحت گزشتہ سال یورپ کے ساحلوں پر پہنچنے والے مہاجرین میں سے کتنے مہاجرین کو واپس بھیجا جائے گا۔
ہالینڈ اپنی باری کے اعتبار سے اس سال کی پہلی ششماہی کے لیے یورپی یونین کی صدارت کے فرائض سرانجام دے رہا ہے اور سام سوم کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک رُٹے کی بھی تائید و حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب اس مجوزہ منصوبے کی تفصیلات منظر عام پر آتے ہی انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے اس کو ہدفِ تنقید بنانا اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس پلان کے تحت اُن افراد کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جائے گا، جو تنازعات اور تعاقب سے فرار ہو کر یورپ پہنچ رہے ہیں۔
مارک رُٹے کے ایک ترجمان نے استفسار کیے جانے پر اس پلان کی موجودگی یا ناموجودگی کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔ اس ترجمان نے محتاط طرزِ عمل اختتیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک عام رکنِ پارلیمان اور ’ولندیزی حکومت کی ذمے داریوں اور پوزیشن میں‘ فرق روا رکھا جانا چاہیے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے وزیر اعظم رُٹے کے ترجمان پال فان نُونن نے کہا کہ ’یورپی یونین کے صدر ملک کی حیثیت سے ہالینڈ کسی مشترکہ حل پر پہنچنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے یعنی پناہ گزینوں کے سیلاب کی روک تھام ہونی چاہیے اور یورپ کی حدود کے اندر انہیں بسانے کی صورتِ حال میں بہتری آنی چاہیے‘۔
یورپی کمیشن کے ایک ترجمان کے مطابق ایسا کوئی پلان ممکنہ طور پر جنیوا کنونشن اور یورپی یونین کی پالیسیوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا:’’اگر کوئی شخص یورپی یونین کے کسی علاقے میں داخل ہوتا ہے یا کسی ایک رکن ملک کی سرحد پر خود کو پیش کرتا ہے اور سیاسی پناہ کی درخواست کرتا ہے تو ہم کبھی بھی اُسے واپس نہیں بھیجیں گے بلکہ اُس کے کیس پر کام شروع کریں گے۔‘‘
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس مجوزہ منصوبے کو ’اخلاقی دیوالیہ پن‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کرنا بین الاقوامی قانون کی رُو سے پناہ کے متلاشیوں کو غیر قانونی طور پر پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر برائے یورپ و وسطی ایشیا جون ڈلہوئیسن نے کہا:’’ترکی سے بڑے پیمانے پر مہاجرین کی یورپی یونین کو منتقلی اور انہیں پناہ دینا ایک اچھا آئیڈیا ہے لیکن اسے سرحدوں پر پہنچنے والوں کی فوری واپسی سے مشروط کرنا انسانی زندگیوں کی سودے بازی کے مترادف ہو گا۔‘‘
ولندیزی رکنِ پارلیمان سام سوم کے مطابق اس پلان پر دسمبر 2015ء سے غور ہو رہا ہے اور یہ کہ وہ آسٹریا، جرمنی اور سویڈن سمیت دس ملکوں کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس پلان پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔