پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا فوجی آپریشن، پولیس کے بغیر
28 مارچ 2016اس خود کُش حملے میں 72 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق انٹیلیجنس کی بنیاد پر شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں صرف پاک فوج اور رینجرز کے جوان حصہ لے رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے یہ کارروائیاں پنجاب پولیس کے ذریعے کی جاتی تھیں۔
سوموار کی شام تک موصولہ اطلاعات کے مطابق سکیورٹی اداروں نے فیصل آباد، لاہور اور ملتان سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں پانچ کارروایئاں کر کے اسلحہ اور بارودی مواد برآمد کیا ہے جبکہ متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
پنجاب بھر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف جاری اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف اس آپریشن کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور اُن کا عزم ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز جاری اس آپریشن میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں رکاوٹ نہیں ہے۔ ان کے مطابق پنجاب کا انسداد دہشت گردی کا ادارہ پہلے ہی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھی پیر کے روز لاہور کے جناح ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہا پسندی کے نظریات کو بھی شکست دینا ہو گی۔ ان کے بقول دہشت گردوں کے معصوم جانوں پر حملے سے پہلے ہی ان دہشت گردوں تک پہنچنا ہو گا۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں تیزی لانے کی ہدایت کی۔
ادھر گلشن اقبال کے علاقے کے ایس ایچ او کی مدعیت میں قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت سانحہٴ گلشن پارک کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق اس واردات کے لیے شلوار اور قمیض میں ملبوس چار نوجوان واردات والے علاقے میں آئے تھے، ان میں سے تین موقعے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جبکہ ایک نے پارک میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔
مقامی شہریوں نے پیر کے روز گلشن اقبال پارک میں اس سانحے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس دوران حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے۔ ہسپتالوں میں سانحہٴ گلشن اقبال کے زخمیوں کی عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ پنجاب حکومت نے اس سانحے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لیے مالی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔
ادھر تحقیقاتی ادارے سانحہ گلشن اقبال کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں، جائے واردات سے ملنے والے شواہد (بال بیئرنگ، خود کش جیکٹ کے حصے وغیرہ) تجزیے کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مشورے سے خودکش بمبار کا خاکہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں سےپچاس کے قریب مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ جائے واردات سے ملنے والے ایک شناختی کارڈ کی مدد سے بھی تحقیقات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس شناختی کارڈ کے بارے میں یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ خود کش بمبار کا ہو سکتا ہے۔
ابھی تک موصولہ اطلاعات کے مطابق اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں میں اُنتیس بچے اور 7 خواتین بھی شامل تھیں۔ ممبر صوبائی اسمبلی شنیلا روتھ کے اندازے کے مطابق اس سانحے میں جان ہارنے والے مسیحی افراد کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو سکتی ہے۔ اس سانحے میں جان ہارے والے افراد کی تدفین کا عمل دن بھر جاری رہا۔
لاہور میں پیر کے روز مارکیٹیں بند رہیں، بیشتر سکول بھی نہ کھل سکے، عدالتوں میں بھی کام نہیں ہوا۔ لاہور کا چڑیا گھر اور تمام پارک بند کر دیے گئے ہیں۔ پھولوں کا میلہ، آرٹ اینڈ کرافٹ فیسٹیول اور جشن بہاراں کی تمام تقریبات بھی منسوخ کی جا چکی ہیں۔ شہر بھر میں حفاظتی انتظامات کو سخت تر کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی سانحہٴ گلشن اقبال پارک کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ بات ملک کی سکیورٹی پالیسی چلانے والوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ دہشت گردوں اپنے خلاف کی جانے والی تمام تر کارروائیوں کے باوجود اب بھی اپنی حملے کرنے کی صلاحیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔