پچاس ہزار شامی مہاجر صحرائی علاقے میں پھنس کر رہ گئے
19 اپریل 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی نیوز ایجنسی پیٹرا کے حوالے سے بتایا ہے کہ اردن کی سرحد پر مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ایک نئی بحرانی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
حکومتی ترجمان محمد مومنی نے بتایا ہے کہ ہدالت اور روکبان کی سرحدی چیک پوسٹوں کے درمیان صحرائی علاقے میں جمع شامی مہاجرین کی تعداد پچاس ہزار ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کے آگے بڑھنے میں حائل مشکلات کی وجہ سے صورتحال انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔
جنوری میں اس مقام پر جمع ہونے والے مہاجرین کی تعداد سولہ ہزار تھی۔ تب اردن کی حکومت نے عالمی برادری سے اپیل بھی کی تھی کہ ان مہاجرین کو سہولیات کی فراہمی کے لیے اردن کی مدد کی جائے۔
محمد مومنی کے مطابق سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے شام سے متصل سرحدی علاقوں پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ شام سے اردن میں داخل ہونے والے مہاجرین کی درجہ بندی کی جا رہی ہے اور پہلے بزرگ، بیمار، خواتین اور بچوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
مومنی نے کہا کہ اس صحرائی علاقے میں قائم شیلٹر ہاؤسز میں روزانہ کی بنیاد پر 75 امدادی کارکن جاتے ہیں، جو وہاں دیگر امدادی تنظیموں کے ورکرز کے ساتھ مل کر ان مہاجرین کے لیے امدادی کام سرانجام دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے رواں برس کے آغاز پر ہی کہا تھا کہ وہ اردن کے سکیورٹی تحفظات کو سمجھتے ہیں، جن کی وجہ سے مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
اردن نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی شامی مہاجر کو پناہ دینے سے قبل اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ کہیں کوئی جہادی کسی مہاجر کے بھیس میں اردن میں داخل نہ ہو جائے۔
انہی خدشات کی وجہ سے اردن کے حکام سخت چیکنگ کے بعد ہی روازنہ کی بنیاد پر صرف قریب درجن بھر شامی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت اردن میں چھ لاکھ تیس ہزار سے زائد مہاجرین پناہ گرین ہیں۔ اردن کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کی اصل تعداد 1.4 ملین ہے کیونکہ بہت سے افراد مہاجرین کے طور پر رجسٹر ہی نہیں کیے گئے۔