پہلے اور اب: بھارتی ’اقتصادی انقلاب‘ کے بیس سال
21 جولائی 2011نئی دہلی کے ایک گیراج کے 56 سالہ مالک پرمود بھسین بتاتے ہیں کہ اقتصادی انقلاب کا آغاز 24 جولائی 1991ء کو منظور ہونے والے بجٹ کے ساتھ ہی ہو گیا تھا اور یہ کہ اُس تاریخ سے پہلے اور بعد کی زندگی میں اُنہیں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے:’’شہر سے باہر فون کرنے کی ضرورت پڑتی تھی تو باقاعدہ کال بُک کروانا پڑتی تھی اور گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اسی طرح گھر پر ٹیلیفون لگوانا دفتر شاہی کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہوا کرتی تھی۔‘‘
1991ء سے پہلے بھارت تقریباً ہر قسم کی بیرونی سرمایہ کاری کے خلاف تھا۔ ملکی قیادت کے سوشلسٹ اور قوم پرستانہ نظریات کے اثرات کے تحت ملک خود کفالت کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش میں رہتا تھا اور بین الاقوامی برانڈ خال خال نظر آتے تھے۔ تاہم یہ پابند معیشت رفتہ رفتہ ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئی تھی۔
پرمود بھسین، جو آج 23 اور 18 سال کی عمروں کی فیشن کی دلدادہ دو بیٹیوں کے والد ہیں، بتاتے ہیں:’’اُس زمانے میں مصنوعات اور سروسز محدود تعداد میں دستیاب تھیں۔ لوگ بیرون ملک بسنے والے اپنے رشتہ داروں کی منتیں کیا کرتے تھے کہ وہ آتے ہوئے اُن کے لیے لیوی کی جینز یا پھر الیکٹرانک مصنوعات لیتے آئیں۔ ستر کے عشرے میں مَیں امریکہ میں رہا اور مَیں جانتا تھا کہ باہر کی دُنیا کیسی ہے۔ یہاں بھارت میں 95 فیصد مصنوعات بھارت کی بنی ہوتی تھیں اور محض چند گنی چُنی جگہوں پر ہی غیر ملکی مصنوعات فروخت ہوتی تھیں۔ ‘‘
پہلے بھارتی شہری شاذ ہی بیرونی ممالک کے سفر پر جاتے تھے، آج کل خوشحال بھارتی کسی قسم کی پریشانی کے بغیر ملائیشیا یا پھر تھائی لینڈ وغیرہ میں تعطیلات گزارنے جاتے ہیں۔ اب براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر سے بھی پابندی ختم ہو چکی ہے ۔ اب اپنا کاروبار شروع کرنے والوں کو دفتر شاہی کی رکاوٹوں کا بھی اتنا زیادہ سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
کوکا کولا اور پیپسی کی غیر موجودگی میں سن 1977ء میں بھارت میں تھمبز اَپ نامی مشروب متعارف کروایا گیا تھا۔ 1991ء میں منڈیوں کے دروازے کھلے تو کوکا کولا کمپنی نے تھمبز اَپ کو خرید لیا۔ ملکی سطح کا یہ مشروب آج بھی کروڑوں بھارتیوں کی پسند ہے اور سب سے زیادہ فروخت ہوتا ہے۔
اب بھارت کی سڑکوں پر ایمبیسیڈر ہی نہیں بلکہ غیر ملکی برانڈز کی کاریں بھی نظر آتی ہیں جبکہ صرف دور درشن کی بجائے ٹی وی چینلز کی بھی بھرمار ہے۔ بھارتی عوام کی اکثریت اس اقتصادی انقلاب کو سراہتی ہے تاہم اُن کے خیال میں اس انقلاب کو اِس سے کہیں آگے تک جانا چاہیے تھا۔ مزید یہ کہ اس انقلاب کے روحِ رواں من موہن سنگھ وزیر اعظم کے طور پر معاشی میدان میں اُتنے مؤثر نہیں رہے ہیں، جتنے کہ وہ وزیر خزانہ کے طور پر تھے، جب ان اقتصادی اصلاحات کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق