تاج محل: بھارتی عدالت نے عرضی گزار کی سرزنش کیوں کی؟
13 مئی 2022الہ آبائی ہائی کورٹ نے ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کی طرف سے دائر درخواست خارج کر دی ہے۔ بی جے پی اجودھیا یونٹ کے میڈیا انچارج رجنیش سنگھ نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ عدالت بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ کو تاج محل کے ان 22 کمروں کو کھولنے کا حکم دے، جو مدتوں سے بند پڑے ہیں۔ عرضی گزار کا کہنا تھا کہ وہ ان بند کمروں کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے تاکہ تاج محل کی اصل تاریخ سب سے سامنے آسکے۔
بی جے پی رہنما نے اپنی عرضی میں یہ بھی کہا تھا کہ تاج محل کوئی مقبرہ نہیں جسے مغل باشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کرایا تھا، بلکہ یہ ایک قدیم شیو مندر ہے، جسے 'تیجو مہالیہ' کے نام سے جانا جاتا تھا اور ایسا بعض''ہندو گروپوں اور قابل احترام سادھو سنتوں‘‘ کا دعوی بھی ہے۔ بی جے پی لیڈر کے وکیل نے عدالت سے حقائق کا پتہ لگانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کی درخواست کی تاکہ تاج محل کی مبینہ 'جھوٹی تاریخ‘ سب کے سامنے آسکے۔
عدالت نے کیا کہا؟
عدالت نے درخواست گزار کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی بحث ڈرائنگ رومز میں تو ہو سکتی ہے لیکن قانون کی عدالت میں نہیں۔ درخواست گزار نے ''معلومات کے حق‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے موقف پر جب اصرار کیا تو عدالت نے سخت لہجے میں کہا کہ برائے کرم مفاد عامہ کے تحت عرضی کے حق کا مذاق نہ بنائیں۔آپ کو یہ حق کیسے حاصل ہو گیا؟ عدالت نے مزید کہا کہ جائیے پہلے ریسرچ کیجئے،''ایم اے میں داخلہ لیجیے۔ اس کے بعد نیٹ (NET) اور جے آر ایف کوالیفائی کیجیے اور اگر اس کے بعد یونیورسٹی اس موضوع پر آپ کو تحقیق کرنے کی اجازت دینے سے منع کرتی ہے تو ہمارے پاس آئیے گا۔‘‘
نیٹ (نیشنل ایلیجبلیٹی ٹسٹ) اور جے آر ایف (جونیئر ریسرچ فیلوشپ) بھارتی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے لازمی ہیں۔
تاج محل بھی ایک عرصے سے ہندو شدت پسندوں کے نشانے پر
اجودھیا کی بابری مسجد، وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کی طرح تاج محل بھی ایک عرصے سے ہندو شدت پسندوں کے نشانے پر ہے۔
گزشتہ برس جنوری میں ایک ہندو شدت پسند تنظیم کے چار کارکنوں کو تاج محل میں بھگوا پرچم لہرانے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سن 2020 میں اسی تنظیم کے کارکنوں نے تاج محل کو "پاک" کرنے کے لیے اس کے احاطے میں گنگا جل چھڑکا تھا۔ ہندو گنگا جل کو انتہائی متبرک سمجھتے ہیں۔
نومبر 2018ء میں راشٹریہ بجرنگ دل کی خواتین کارکنوں نے تاج محل میں پوجا کی اور گنگا جل چھڑکا تھا۔ سن 2008ء میں شیوسینا کے کارکنوں نے تاج محل میں پوجا کی تھی۔ بی جے پی رہنما ونئے کٹیار نے سن 2017ء میں دعوی کیا تھا کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے دراصل ایک ہندو مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تاج محل بنایا۔
بھارتی محکمہ آثار قدیمہ نے اگست 2017ء کو آگرہ عدالت میں حلف نامہ داخل کر کے کہا تھا کہ تاج محل کبھی بھی مندر نہیں تھا یہ ہمیشہ ایک مسلم مقبرہ رہا ہے۔