’پہلے چھ ماہ دو لاکھ سے زائد پناہ گزین جرمنی پہنچے‘
9 جولائی 2016جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی کے باوجود جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ سن دو ہزار سولہ میں جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد کتنی ہو گی۔ گزشتہ برس تقریبا 1.1 ملین افراد نے جرمنی میں پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
جمعے کی شام جرمن وزیر داخلہ نے برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والی ڈیل پر ابھی تک عملدرآمد ہو رہا ہے۔ لیکن میں ضمانت نہیں دے سکتا کہ آئندہ مہینوں میں بھی صورتحال ایسی ہی رہے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بلقان کے راستوں کی صورتحال مزید بگڑ بھی سکتی ہے۔
رواں برس جنوری تا جون جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد دو لاکھ بائیس ہزار دو سو چونسٹھ بتائی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ صرف جنوری میں جرمنی آنے والے ایسے افراد کی تعداد اکانوے ہزار چھ سو اکہتر تھی، جس کے بعد اس تعداد میں ڈرامائی کمی ہوئی۔
جون میں جرمنی پہنچنے والے مہاجرین و تارکین وطن کی تعداد تقریبا سولہ ہزار رہی۔ اپریل اور مئی میں بھی جرمنی آنے والے ایسے افراد کی تعداد تقریبا اتنی ہی نوٹ کی گئی تھی۔
گزشتہ برس جب مہاجرین کا بحران شدت اختیار کر گیا تھا تو سن 2015ء میں صرف نومبر کے مہینے میں ہی جرمنی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد دو لاکھ چھ ہزار تھی۔ ان میں سے زیادہ تر تعداد شامی مہاجرین کی تھی، جو اپنے ملک میں جاری خانہ جنگی سے فرار ہو کر پرسکون ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔
تھوماس ڈے میزیئر کے مطابق شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی رجسٹریشن کا عمل بھی بہتر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اطالوی حکام اب وہاں پہنچنے والے تارکین وطن کو آگے دیگر یورپی ممالک روانہ کرنے کے بجائے ان کی مؤثر طریقے سے رجسٹریشن کر رہے ہیں۔
ڈے میزیئر کے مطابق اگرچہ اس وقت بلقان کے راستے مہاجرین پر بند ہیں لیکن انسانوں کے اسمگلر پناہ گزینوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو یورپی ممالک میں لانے کے لیے فعال ہیں۔
اسی دوران جرمن حکام نے ایسے پناہ گزینوں کی ان کے ممالک واپسی کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں یا جن کا تعلق ’محفوظ ممالک‘ سے ہے۔
ڈے میزیئر کے مطابق رواں سال کے دوران تقریبا ایک لاکھ ایسے افراد ملک بدر کر دیے جائیں گے یا وہ خود ہی واپس اپنے ممالک کو چلے جائیں گے، جن کی پناہ کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں۔ گزشتہ برس ایسے افراد کی تعداد 59 ہزار بتائی گئی تھی۔