طیارہ حادثہ: انکوائری بٹھائی جائے گی
8 دسمبر 2016گزشتہ روز مورخہ سات دسمبر کو پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد آج اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف اسپتالوں میں اپنے پیاروں کی شناخت کے لیے پہنچی۔ طیارے کے حادثے میں سینتالیس جانیں ضائع ہونے کے بعد سے ملک بھر میں سوگ کی فضا طاری ہے۔
حادثے کے بعد پاکستان میں کئی حلقے فضائی سفر میں سلامتی کی صورتِ حال کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن حکومت کے خیال میں پاکستان میں فضائی حادثے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم رونما ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سابق وزیرِ ماحولیات مشاہد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ کہنا کہِ ان حادثات کی تعداد پاکستان میں بڑھتی جارہی ہے ، مناسب نہیں اور پی آئی اے کے جہازوں میں تو حادثات ویسے ہی گِنے چُنے ہیں۔ لوگ اُس سی وَن 30 کے حادثے کو بھی پی آئی اے کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جس میں جنرل ضیاالحق کی ہلاکت ہوئی تھی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا، ’’ اس حادثے پرانکوائری بٹھائی جائے گی جس کی ابتدائی رپورٹ چار ماہ میں آجائے گی جب کہ اس حادثے کی تفصیلی تحقیقات میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ انکوائری ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا تقاضہ ہے تو اِس سے بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کے انشورنس کی رقم کی ادائیگی کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔ لہذٰا انکوائری ضرور ہوگی اور حقائق کو منظرِ عام پر لایا جائے گا۔‘‘
ہلاک شدگان کی لاشوں کی شناخت کے حوالے سے پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکڑ وسیم خواجہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’تئیس افراد کی لاشیں پمز لائی گئیں ہیں، جو بری طرح جُھلسی ہوئی ہیں۔ اس لئے اِن کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے تیئس افراد کے نمونے لئے جارہے ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج آنے میں سات سے دس دن لگ سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ بقیہ لاشوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احمد کمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’تیئس لاشیں پمز پہنچادی گئی ہیں جہاں ڈی این اے کے نمونے لئے جارہے ہیں۔ چوبیس لاشیں ابھی لائی جارہی ہیں۔ ان لاشوں کو اسپتالوں میں موجود گنجائش کے حوالے سے رکھا جائے گا کیونکہ ہر اسپتال کے سرد خانے کی گنجائش مخصوص ہوتی ہے۔ اس گنجائش کے حوالے سے پمز میں آٹھ لاشیں رکھی جائیں گی، کمبائنڈ ملڑی اسپتال راولپنڈی میں اٹھارہ، پولی کلینک اسلام آباد میں دس، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال راولپنڈی میں پانچ اور کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اسپتال میں دو لاشیں رکھی جائیں گی۔‘‘
انہوں نے کہا این ڈی ایم اے نے لاشوں کو لانےکے لئے متعلقہ اداروں سے مل کر ہیلی کاپٹرز کا انتظام کیا ہے جب کہ ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات بھی این ڈی ایم اے کی طرف سے ہی کیے جارہے ہیں۔ ’’اگر حکومت نے معاوضےکی ادائیگی کا فیصلہ کیا تو وہ بھی ہمارے ہی ادارے کے ذریعے کی جائے گی۔‘‘
پی آئی اے کے ترجمان عادل گیلانی نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ کچھ افراد کی لاشیں اُن کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا، ’’ ابھی شناخت کا عمل جاری ہے۔ ابھی تو صرف ڈی این اے کے لئے نمونے لئے گئے ہیں۔ اس میں کچھ دن لگیں گے۔ پی آئی اے نے لواحقین کو اسلام آباد پہنچنے کے لئے فضائی ٹکٹ دیے ہیں۔ ہوٹلوں میں اُ ن کے رہنے کا بندوبست کیا ہے جب کہ اُن کو سفری سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ علاوہ ازیں پی آئی اے انتظامیہ نے تمام ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے فی کس دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو ان کے تجہیزوتکفین کے لئے دیےجائیں گے۔‘‘
عادل گیلانی نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کی تردید کی کہ یہ طیارہ فنّی نکتہ ء نظر سے اڑانے کے قابل نہیں تھا۔’’ طیارہ فنّی لحاظ سے بالکل صحیح حالت میں تھا۔ اس کے سفری گھنٹے بھی صرف اٹھارہ سو کے قریب تھے۔ جہاز نے ٹیک آف بھی بالکل صحیح انداز میں کیا تھا۔ اس حادثے کے حوالے سے تحقیقات کی جائے گی ۔ لہذٰا ایسی قیاس آرائیوں سے گریز کیا جانا چاہیئے۔‘‘
پاکستان کے شہروں لاہور اور پشاور میں حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لئے غائبانہ نمازِ جنازہ اداکی گئی جب کہ کئی شہروں میں ہلاک شدگان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے اس حادثے پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے کل اور آج اسی حادثے کو اپنا موضوعِ بحث بنایا اور ہلاک ہونے والے مختلف افراد کے حوالے سے خصوصی رپورٹیں دکھائیں۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنے پیغامات کے ذریعے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر سب سے زیادہ کوریج پاکستان کی معروف شخصیت جُنید جمشید کو دی گئی جنہوں نے سن 2002 کے بعد ڈرامائی طور پر موسیقی کی دنیا کو خیر باد کہہ کر مذہب سے لَو لگا لی تھی۔ اس تبدیلی کے بعد انہوں نے نعت گوئی کا آغاز کیا اور اپنی مصروفیات کا ایک بڑاوقت دعوتِ تبلیغ میں صَرف کیا۔