پیرس او لمپکس 2024ٔٔ کو پہلی جینڈر ایکول گیمز کہا جا رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مرد اور خواتین ایتھلیٹس کی تعداد بالکل برابر ہے۔ 50 فیصد مرد اور 50 فیصد خواتین ان اولمپکس میں حصہ لے رہی ہیں۔ دنیا بھر سے ایتھلیٹس پیرس میں جمع ہیں۔ یہاں ہر رنگ، نسل اور صنف کی یکساں نمائندگی نظر آ رہی ہے، مگر ایک چیز جو اس سب سے متنازعہ ہے وہ ہے میزبان ملک کے ایتھلیٹس کے لیے جاری کردہ ڈریس کوڈ۔ فرانس نے اپنے ایتھلیٹس پر کسی بھی قسم کی مذہبی علامت کو ظاہر کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے، جس کی وجہ سے بہت سی حجابی خواتین ایتھلیٹس ان کھیلوں میں حصہ نہیں لے سکیں۔ بین الاقوامی طور پر اس فیصلے کو مہینوں تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے مگر فرانسیسی حکومت نے اس فیصلے کو واپس لینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی وومن رائٹس ریسرچر نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف صنفی برابری کی بات کرنا اور دوسری طرف مذہبی علامات کے نام پر اپنی ہی حجابی خواتین کو حصہ لینے سے روکنا کھلا تضاد ہے۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حجابی خواتین کو خواتین ہی نہیں گردانتے۔ کیا حجابی خواتین کسی گنتی میں نہیں ہیں؟
دو دہائیوں پہلے فرانس نے سرکاری سکولوں میں تمام مذہبی علامات پر پابندی عائد کی تھی اور تب سے مسلمان طالبات سکول میں حجاب نہیں پہن سکتیں اور اب کچھ عرصہ پہلے عبایا پہننے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس پابندی نے بھی اسلاموفوبیا کو بدتر کیا ہے۔ ایسی پابندی کسی بھی مذہب سے متعلق مزید غلط فہمیاں پیدا کرتی ہے اور خود اعتمادی کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہیں۔
کھیل کے میدان میں سب کی برابر نمائندگی ایک بہت اچھی پیش رفت ہے، جو ہر ایک کو کھل کر اپنی صلاحیت منوانے کا موقع دیتی ہے۔ ایسا منافقانہ امتیازی سلوک بہت سی ابھرتی ہوئی ایتھلیٹس کے لیے منفی ثابت ہو رہا ہے۔
"فرانس کی اولمپکس میں حجاب پر پابندی نے میرا دل توڑ دیا ہے۔" یہ الفاظ 23 سالہ ڈيابا کوناٹے کے ہیں جو کہ فرانس کی باسکٹ بال کی قومى يوتھ ٹیم کا ابھرتا ہوا ستارہ بن کے سامنے آئیں اور متعدد میڈل جیت چکی ہیں۔ وہ چھ برس امریکہ میں ایک کامیاب کالج کیرئیر کے بعد ایسی ہی کارکردگی دوبارہ پیش کرنے کے عزم کے ساتھ واپس گھر لوٹیں تو انہیں حجاب پر پابندی کے فیصلے کا علم ہوا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنی ترقی اور جدت کے دور میں ہونے کے باوجود شاید ہم ابھی تک زبردستی کی تعریف نہیں سمجھ سکے ہیں۔ مغربی میڈیا جو سال ہا سال سے حجاب پہننے کو کوئی ظلم یا زبردستی قرار دیتا رہا ہے وہ آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ کسی سے زبردستی حجاب اتروانا بھی ظلم و زبردستی ہی ہے۔ یہ کیسی آزادی اور برابری کی دوغلی قسم ہے، جہاں ہم اپنی مرضی کا پہناوا منتخب کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ حجاب کسی صورت کسی بھی اور تہذیب یا مذہب کے لیے ہتک آمیز یا دل شکن نہیں ہے۔ ایک خاتون جسے آپ اپنے اصولوں کے مطابق آج برابری دے رہے ہیں کیا اسے اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اس برابری کی الگ جنگ لڑنا پڑے گی؟
پیرس اولمپکس میں صنفی برابری سے کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم صرف اور صرف تعداد میں برابری کو کچھ سمجھتے ہیں۔ ایک عاقل بالغ خاتون کو یہ حق نہیں دے رہے کہ وہ خود یہ فیصلہ کر سکے کہ وہ کس لباس میں آسوده اور مطمئن ہے۔ یعنی اس فیصلے کا حق بھی کسی حکومت کو ہونا چاہیے کیونکہ شاید خواتین خود سمجھ نہیں رکھتیں؟ اگر یہی سوچ عمل پیرا ہے تو پھر پتھر کے زمانے اور آج کے زمانے میں خاص فرق نہیں۔
سلیماتا سائلہ ایک اور اہم مثال ہیں، جن کی کامیابی میں حجاب پر پابندی بری طرح حائل ہو رہی ہے۔ جنوری 2023 میں باسکٹ بال فرنچ لیگ کی کپتانی سے چند لمحے قبل ان کے کوچ نے یہ خبر دی کہ ریفری انہیں کورٹ میں صرف تب کھیلنے کی اجازت دے گا جب وہ اپنا حجاب اتاریں گی۔ بحیثیت ایک مسلمان کھلاڑی جنہوں نے تین سال حجاب کے ساتھ کھیلا ہے، ان کے لیے یہ کرنا ناممکن تھا۔ انہوں نے کورٹ میں اعلانیہ کہا، "آپ نے مجھے ہمیشہ ایسے (حجاب کے ساتھ) دیکھا ہے اور آپ مجھے کسی اور طرح کورٹ میں نہیں دیکھیں گے۔"
پیرس اولمپکس میں اس پابندی کو جاری رکھنے پر سائلہ مایوسی کا اظہار کرتی ہیں اور انہیں اور ان جیسی باقی حجابی خواتین کھلاڑیوں کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک جہاں وہ پیدا ہوئیں اور جس کے لیے وہ کھیل رہی تھیں، اس ملک نے صرف حجاب کی وجہ سے انہیں خود سے الگ کر دیا ہے۔ یہ ایک امتیازی سلوک ہے، جو کہ شخصی آزادی کا احترام نہیں کرتا۔
دنیا بھر سے خواتین ایتھلیٹس نے فرانس کے اس فیصلے پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور وہ فرانسیسی حجابی ایتھلیٹ سے اظہار یکجہتی کرتی ہیں۔ باصلاحیت کھلاڑیوں کو صرف مذہب کی بنیاد پر آگے آنے سے روکنا مستقبل میں فرانس کے لیے تباہی برپا کر سکتا ہے۔ نئی نسل کو کوئی رول ماڈلز دیکھنے کو نہیں ملیں گی، جو مذہب رنگ نسل ہر چیز سے بالاتر ہو کے صرف اپنی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔ فٹبال اور باسکٹ بال کے مختلف کلبز کے ممبران اسے اسلاموفوبیا، صنفی امتیازی سلوک اور منافقت قرار دے رہے ہیں۔
یہ واقعی مضحکہ خیز ہےکہ سن 2024 میں بھی ہمیں اس بحث میں پڑنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کئی سالوں سے خواتین کو یہ جنگ لڑنا پڑ رہی ہے کہ ان کی صلاحیت کا بھی ادراک کیا جائے اور آج جب خواتین کو نمائندگی کا برابر موقع دیا جا رہا ہے تو اس میں ایک مذہب کی خواتین کو نشانہ بنانا اور باقی سب سے الگ کرنا یقینا منافقت ہے۔ کہنے کو یہ پابندی تمام مذاہب کے لیے ایک جیسی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ حجاب ہی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی مذہبی علامت ہے اور بہت سی حجابی خواتین کھلاڑیوں پر یہ پابندی براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی طور پر اس فیصلے پر آواز اٹھانا اور اس کی مذمت کرنا، مستقبل میں ایسے منافقانہ امتیازی سلوک سے بلا تفریق ہر انسان کو بچانے کے لیے ضروری ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔