چمگاڈر سے پینگولین تک، کورونا وائرس ہم تک کیسے پہنچا؟
8 فروری 2020ساؤتھ چائنا ایگریکلچرل یونیورسٹی کے ریسرچرز نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سلسلے میں اُن کی ریسرچ یقینی طور پر بریک تھرو ہونے کے علاوہ اس کے شافی علاج میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔ چینی محققین کا یہ دعویٰ ہے کہ اس وائرس کا ڈی این اے پینگولین سے حاصل ہونے والے وائرس کے ساتھ ننانوے فیصد مشابہت رکھتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ پینگولین دنیا میں وہ واحد دودھ پلانے والا جانور ہے، جس کے بدن پر اسکیل ہوتے ہیں۔ یہ زمین میں مورچہ نما گڑھا بن کر رہتا ہے۔ اس کی من پسند خوراک چیونٹیاں ہیں۔
دوسری جانب مختلف سائنسدانوں نے چینی ریسرچرز کے اس انکشاف کو چیلنج کیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کی وجہ اس کا چمگادڑ سے پنگولین میں اور پھر انسانوں میں منتقل ہونا ہے۔ برطانوی کیمبرج یونیورسٹی کے حیوانی ادویات کے شعبے کے محقق جیمز ووڈ نے چینی دعوے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں ابھی یہ تحقیق اپنی منزل سے بہت دور ہے۔ پینگولین میں وائرس کی افزائش اور انسانوں میں منتقلی کی ریسرچ نامکمل ہے اور اسی لیے ابھی تک شائع نہیں کی گئی۔
پروفیسر جیمز ووڈ نے پینگولین کے حوالے سے چینی یونیورسٹی کے بیان کو ایک سائنسی ریسرچ ماننے سے انکار کیا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے محقق کا یہ بھی کہنا ہے کہ محض ڈی این اے کا ملنا مناسب اور مکمل شواہد قرار نہیں دیے جا سکتے۔
چینی ریسرچر کا خیال ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑ سے پینگولین میں کسی دوسرے جانور کے ذریعے منتقل ہوا ہے۔ ابھی ممکنہ جانور کی تلاش جاری ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ کسی مردہ چمگادڑ کے گوشت کو چیونٹیوں نے چٹ کر لیا تو وہ کسی گزرتے پینگولین کا نشانہ بن گئیں اور یوں منتقلی ممکن ہو سکتی ہے۔
ہانگ کانگ سٹی یونیورسٹی کے حیوانی ادویات کے شعبے کے پروفیسر ڈرک فائفیر کے خیالات بھی کیمبرج یونیورسٹی کے ریسرچر جیمز ووڈ جیسے ہیں۔ انہوں نے بھی کورونا وائرس کے حوالے سے چینی دعوے کے حوالے سے کہا کہ ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ ابھی تحقیقی عمل کو مزید وقت اور شواہد درکار ہیں۔ فائفر کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم اور پینگولین کے درمیان کوئی ربط جوڑنا فی الحال مشکل ہے۔
پینگولین کی جلد کو چین میں روایتی ادویات سازی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ع ح ⁄ ا ا (روئٹرز)