چوتھی کھونٹ طلسم
9 دسمبر 2018ان کہانیوں کے جنگل میں تین سمت شکار کھیلنے کی اجازت ہوتی تھی اور چوتھی سمت جانے پر ناشدنی کا اندیشہ رہتا تھا۔ یہ قصہ گو، نجومی وغیرہ بادشاہ کو راستے میں آنے والی نشانیاں بتا بتا کر چوتھی سمت جانے سے روکا کرتے تھے۔ بادشاہ لیکن بادشاہ ہوتا ہے، جب وہ ان سگنلز پر توجہ نہ دیتے ہوئے کسی ہرن کا تعاقب جاری رکھتا، تو اسے بھٹکنا پڑتا تھا۔
اس وقت بادشاہ کو راستے میں کوئی نہ کوئی درویش ملا کرتا تھا، جو جنگل میں اپنی کٹیا کے باہر بیٹھا عبادت میں مشغول ہوا کرتا تھا۔ بادشاہ کے پاس اس در بدری کے دوران عام طور پر پانی ختم ہو چکا ہوتا تھا اور اسے پانی کے ایک پیالے کا سوال لیے درویش کی عبادت میں مخل ہونا پڑتا تھا۔
درویش چونکہ جنگل میں صرف ساقی گری کے لیے نہیں بٹھائے جاتے بلکہ ان سے کہانی کو چلتا رکھنے کا کام لینا بھی مقصود ہوتا ہے، اس لیے جاں بہ لب بادشاہ کو پانی پلانے کے بعد درویش اسے ایک آدھ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا تھا۔
بعض بادشاہ تو اس بات پر خود بھی حیران ہو کر، کہ یہ بندہ خدا اس جنگل بیابان میں زندگی کیسے بسر کر رہا ہے، اس سے زندگی گزارنے کا کوئی گُر بھی پوچھ لیا کرتے تھے۔
درویش عام طور پر ہر فن مولا ہوا کرتا تھا اور بادشاہ کے خانگی امور سے لے کر ملک کی خارجہ پالیسی تک سب پر گہری نظر رکھتا تھا۔
وہ بادشاہ کو بتایا کرتا تھا کہ اول تو شکار وغیرہ جیسی چیزوں پر وقت اور پیسہ ضائع کرنا امور سلطنت سے بےتوجہی برتنے اور عوام کے حال سے غافل رہنے کا سبب بنتا ہے لیکن اب اگر ’تم جنگل میں آ ہی گئے ہو اور تم نے میری تپسیا کھنڈت کر ہی دی ہے، تو سنتے جاؤ کہ راستے بھر میں ملنے والی نشانیوں اور نجومیوں کی جاری کردہ وارننگز کے باوجود تم اس سمت بڑھے چلے جا رہے ہو، جس سے تمہیں خبردار کیا جا رہا تھا۔ مزید آگے جاؤ گے تو اپنے لشکروں، حواریوں، مال و اسباب سے تو ہاتھ دھو ہی بیٹھو گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ جان کے لالے بھی پڑ جائیں‘۔
اس کے بعد دو ہی صورتیں ہوتی تھیں۔ یا تو بادشاہ اس درویش کی الل ٹپ باتوں پر توجہ نہیں دیا کرتا تھا اور چوکڑیاں بھرتا کسی خوش شکل ہرنوٹے کے تعاقب میں وہ اسی چوتھی سمت جا نکلتا تھا اور پھر کہانی میں وہی ہوتا تھا، جو درویش نے کہا ہوتا تھا۔ یا پھر بادشاہ کو کان ہو جاتے تھے اور وہ درویش کی دی ہوئی کسی انگوٹھی وغیرہ کی مدد سے راستہ طے کرتا واپس اپنے ملک پہنچ کر خیر خیریت سے حکومت کرتا تھا اور باقی عمر سیر شکار سے توبہ کر کے چوتھی سمت کا نام لینے سے بھی بچ جاتا تھا۔
پاکستان کی سیاست کے جنگل میں انسانی حقوق، جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی، سویلین بالادستی اور ایسے ہی دیگر خوش نما جانوروں کے پیچھے گھوڑا ڈال دینے والے شہزادوں کی تعداد کوئی بہت زیادہ کبھی بھی نہیں رہی۔
جو ہیں، انہیں بھی ایسی کئی نشانیاں اور علامتیں کالم نگاروں، ٹیلی وژن اینکروں اور جہاں دیدہ مشیروں کی صورت میں ملتی ہیں، جو ’ادھر نہ جائیو، ادھر جانے والا کبھی واپس نہیں آیا‘ کا نعرہ مستانہ لگا کر کبھی مشورے، کبھی دھمکی تو کبھی ماضی کی کسی مثال کا حوالہ دے کر جمہوریت اور انسانی حقوق نامی جنگل کی جنسوں کے تعاقب میں جاتے شہزادوں کو قومی سلامتی کی چوتھی کھونٹ جانے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شہزادے لیکن سرپھرے ہوتے ہیں اور باز نہیں آتے۔ ایسے وقت میں درویشوں کو اپنی عبادت سے توجہ ہٹا کر پریس بریفنگز کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جس میں سرپھرے شہزادوں کو کامیاب بادشاہ بننے کے لیے واپس چلے جانے کا مشورہ دینے اور چوتھی سمت کی ریڈلائنز سے دور رہنے کے بارے آگاہ کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے تعاقب اور جبر سے آزادی کی تلاش لیکن شہزادوں کو مخمل کا بستر ترک کر دینے، لاپتہ ہو جانے، سفر میں رہنے، دیو کی قید میں گرفتار ہونے، یہاں تک کہ جان کی بازی لگا دینے پر بھی آمادہ کیے رکھتی ہے۔ کہانیاں یوں ہی دوہرائی جاتی رہی ہیں۔ پلٹ جانے یا چوتھی سمت کا طلسم فاش کر دینے والے اپنے اپنے فیصلے کرتے رہے ہیں۔ لیکن درویشوں کی مان کر رستہ بدل لینے والوں کو شہر لوٹ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چوتھی سمت ایک نئی دنیا تھی اور راستوں پر بٹھائے گئے درویش پرانی دنیا کے پیغامبر۔