چين کی مسلم ايغور اقليت کا تشخص خطرے ميں
11 اگست 2011چين ميں شہری ترقی کے سلسلے ميں مکانات کو منہدم کرنے کی ايک بڑی مہم جاری ہے۔ کاشغر کے ايک ايغورتاجر ابوالقاسم کو بھی اپنے ايک صدی پرانے، مٹی کی اينٹوں سے بنے مکان کو بچانے کے ليے حکام سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ جب اُس نے سن 2004 ميں مغربی چينی صوبے سنکيانگ کے دارالحکومت کاشغر ميں اپنے اس مکان کو چھوڑنے سے انکار کيا تھا، تو پوليس اُسے ہتھکڑياں لگا کر مقامی تھانے لے گئی تھی۔
سن 2005 اور سن 2007 ميں ابوالقاسم نے اپنے مکان کے انہدام کے بدلے ميں ملنے والے کم معاوضے کی شکايت درج کرانے کے ليے بيجنگ کا سفر کيا، ليکن دونوں بار اُسے گرفتار کر ليا گيا۔
قاسم کی پريشانی غالباً چين کے شہريوں کی سب سے زيادہ عام پريشانی ہےليکن سنکيانگ کے صوبے کے حوالے سے اس کا ايک خاص پہلو بھی ہے کيونکہ ماہرين کا يہ خيال ہے کہ مکانات کو گرا کر ترک نژاد ايغورمسلمان اقليت کے تشخص کو مٹايا جا رہا ہے۔
ايغورچين کی سب سے زيادہ غير مطمئن اقليتوں ميں سے ايک ہيں جو حکمران کميونسٹ پارٹی اور ملک کی اکثريتی آبادی ہن چينيوں سے سخت نالاں ہيں۔ قاسم نے کہا: ’’ميں جب بھی اپنے مکان کے بارے ميں سوچتا ہوں، توميں بہت غصہ ميں آجاتا ہوں اور مجھے بالکل چين نہيں آتا۔ کسی بھی سرکاری دفتر ميں ميری شکايت پر توجہ نہيں دی گئی۔ ميرے والد کو اس پر اتنا غم و غصہ تھا کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔‘‘
قاسم نے، جو چين کی سب سے بڑی کاشغرعيد گاہ مسجد کے باہر کڑھائی والی ٹوپياں بيچتا ہے، کہا کہ وہ رمضان کے بعد دوبارہ شکايت درج کرانے کے ليے بيجنگ جائے گا تو سہی ليکن اُسے کچھ زيادہ اميد نہيں ہے۔
مقامی حکومت نے قاسم کو 470 ين يا 73 ڈالر فی مربع ميٹر کے معاوضے کی پيشکش کی تھی حالانکہ اس وقت کئی منزلہ عمارات ميں بھی فليٹوں کی قيمت 30 ہزار ين فی مربع ميٹر سے زائد ہے۔
سنکيانگ ميں تين سال سے بھی زيادہ عرصہ گذارنے والے، آسٹريلين نيشنل يونيورسٹی کے ايک گريجويٹ ٹام کلف نے کہا: ’’بے چينی پھيلنے کی ايک بڑی وجہ يہاں زمين اور جائيداد کی ضبطی ہے۔ بہت سے ايغور يہ سمجھتے ہيں کہ اُن کی زمينوں کو کم معاوضے پر اُن سے چھينا جا رہا ہے اوروہ اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی تک بھی نہيں کر سکتے۔ ‘‘
روايتی طب کے ايک 97 سالہ ڈاکٹر گوپک حاجی نے کہا کہ حکومت نے اس کے 100 مربع ميٹر کے کچی اينٹوں سے بنے پرانے مکان کے بدلے ميں اُسے صرف 80 اسکوائر ميٹر کا مکان ديا اور 9600 ين کا جزوی معاوضہ پيش کيا جسے اُس نے ٹھکرا ديا۔ گوپک نے کہا: ’’ايک حقيقی کميونسٹ پارٹی کو تو لوگوں کی مدد کرنا چاہيے، مگر يہ تو دھوکے باز ہيں اور پيسہ صرف اپنی جيبوں ميں بھر رہے ہيں۔‘‘
چينی حکام کا کہنا ہے کہ سنکيانگ ميں بے چينی کی وجہ يہ ہے کہ عليحدگی پسند، دہشت گرد تنظيم القاعدہ يا دوسرے ترک قوميتی گروپوں کے انتہاپسندوں کے ساتھ ملے ہوئے ہيں، جو مشرقی ترکستان کے نام سے ايک آزاد رياست چاہتے ہيں۔ ليکن ايغور چينی حکومت کے اس دعوے پر شک کرتے ہيں۔ ايک 40 سالہ امام مسجد نے کہا کہ اکثر لوگوں نے اس عليحدگی پسند تحريک کے بارے ميں سنا تو ہے ليکن وہ نہيں جانتے کہ يہ کون لوگ ہيں۔
ايغور تاجر قاسم نے چند دنوں پہلے کاشغر کے حملوں ميں ملوث ہونے کے شبے ميں پوليس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دو ايغوروں کی تصاوير والے ايک پوسٹر پر نظريں جماتے ہوئے کہا: ’’يہ دہشت گرد نہيں تھے۔ اُن کے اپنے ذاتی مسائل تھے۔اگر وہ اُن کو حل نہيں کرسکے تھے، تو ہو سکتا ہے اُن کے پاس کوئی اور راستہ نہيں تھا۔‘‘
جب قاسم سے پوچھا گيا کہ کيا سنکيانگ کو آزاد ہونا چاہيے تو اُس نے کہا: ’’ميں اس کا جواب دينے سے خوفزدہ ہوں۔ ديواروں کے بھی کان ہوتے ہيں۔ ليکن اگر آپ ہوشيار ہيں تو آپ کو يہ معلوم ہوگا کہ ميرا کيا جواب ہے۔‘‘
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک