چھوٹے لڑکوں کے ختنے جائز یا ناجائز، ایک لامتناہی بحث
4 مئی 2017اس موضوع پر اگر ایک عالمی دن منایا جاتا ہے، تو یہی بات اس حقیقت کو واضح کر دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک بہت اہم لیکن کافی متنازعہ موضوع بھی ہے۔ چھوٹے بچوں کے ختنے کرا دینے کی سماجی، مذہبی یا طبی روایت کی مخالفت کرنے والوں کے دلائل اگر باوزن ہیں تو اسی روایت کے حامیوں کی دلیلیں بھی کم اہم نہیں۔
مئی 2012ء میں جرمنی کے شہر کولون کی ایک صوبائی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں یہ کہتے ہوئے بہت سے سماجی حلقوں کو حیران کر دیا تھا کہ چھوٹے لڑکوں کے ختنے کرا دینا انہیں جسمانی طور پر زخمی کر دینے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں نسوانی ختنے، ایک خفیہ رواج؟
’تمام خواتین‘ کے ختنے کروائے جائیں، روسی مفتی
نسوانی ختنوں میں اضافہ، عالمی برداری میں پریشانی کا باعث
اس عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر ختنے جسمانی طور پر زخمی کر دینے والے ایک عمل کے طور پر کسی بھی بچے کی بہتری کے حق میں نہیں تو پھر انہیں ایسے کسی بچے کے والدین کی طرف سے مذہبی وجوہات کی بناء پر کیے جانے والے ایک عمل کے طور پر بھی جائز اور قانونی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس عدالتی فیصلے پر جرمنی میں مسلمانوں اور یہودیوں کی تنظیموں نے خاص طور پر شدید تنقید کی تھی۔ اس لیے کہ ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیے لڑکوں کے ختنے کرانا مذہبی احکامات پر عمل درآمد کا حصہ ہے۔
تب جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی تنظیم کے اس دور کے سربراہ نے واضح کر دیا تھا کہ اگر یہودی گھرانوں کے لڑکوں کے لیے ختنے قانوناﹰ ممنوع قرار دے دیے گئے تو جرمنی میں آباد یہودیوں کی مذہبی اقلیتی آبادی کے لیے اس معاشرے میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
اسی طرح جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل نے بھی واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ عدالتی فیصلہ ایک مذہبی برادری کے طور پر مسلمانوں کے اپنے فیصلے خود کرنے اور مسلم بچوں کے والدین کے حقوق دونوں کی نفی کرتا ہے۔
گُڈ فرائیڈے کے دن ختنے کی مسلم تقریبات کی ممانعت
جرمنی میں ختنے کی آئندہ بھی اجازت ہو گی، بنڈس ٹاگ
اس پر دسمبر 2012ء میں ہی وفاقی جرمن پارلیمان نے ایک ایسا نیا قانون منظور کر لیا تھا، جس کے تحت کسی بھی لڑکے کے مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے ختنوں کو جائز اور قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے ان کی اجازت دے دی گئی تھی۔
لیکن پھر یہ بھی ہوا کہ 2013ء سے سات مئی کے روز، جس دن ایک سال قبل کولون کی عدالت نے اس بارے میں فیصلہ سنایا تھا، جنسی اعضاء سے متعلق فیصلے کے ذاتی حق کا عالمی دن منایا جانے لگا۔ اس دن کو منانے کا مقصد اس سوچ کی ترویج ہے کہ چھوٹے لڑکوں کے ختنوں کی روایت ختم ہونی چاہیے اور یہ فیصلہ بلوغت کو پہنچنے کے بعد ہر انسان کو خود کرنا چاہیے کہ آیا وہ اپنے ختنے کروانا چاہتا ہے۔
اس عالمی دن کے حامیوں کا موقف ہے کہ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو جسمانی طور پر ویسے ہی رہنے دیا جائے، جس طرح وہ پیدا ہوا تھا اور اسے محض کسی مذہبی یا سماجی روایت یا پھر اس کے والدین کی خواہش پر جسمانی قطع برید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
دوسری طرف لڑکوں کے ختنوں کے حامیوں کا کہنا یہ ہے کہ ایسی کوئی بھی ممانعت، اگر ایسا مذہبی بنیادوں پر کیا جائے، جیسا کہ مسلم یا یہودی گھرانوں میں، آزادی مذہب کے حق کی سراسر نفی ہو گی۔ اسی سلسلے میں بہت سے ماہرین قانون یہ بھی کہتے ہیں کہ اس موضوع پر کولون کی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شہریوں کے طور پر عام لوگوں کے مذہبی آزادی کے بنیادی حق کا لازمی اور کافی دھیان نہیں رکھا تھا۔
اس پس منظر میں لڑکوں کے ختنوں کے خلاف اور ان کے حق میں بہت سے جامع دلائل کے باوجود یہ مسئلہ شاید اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ اس موضوع پر فریقین کی طرف سے ’برداشت کے ہنر‘ کا مظاہرہ کیا جائے۔