1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: حرکت قلب بند ہو جانے کے واقعات میں چار گنا اضافہ

کشور مصطفیٰ1 جولائی 2014

معروف طبی تحقیقی جریدے ’لینسٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق چینی ہسپتالوں میں شدید نوعیت کے دل کے دورے کے مریض داخل کیے جانے کے واقعات میں گزشتہ دس برسوں کے دوران چار گُنا اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CTLu
تصویر: picture-alliance/dpa

2001 ء میں چین میں ہر ایک لاکھ باشندوں میں سے قریب چار ’کارڈیئک ارَیسٹ‘ یا توقف قلب کا شکار ہوئے۔ اس کیفیت میں مریض کے دل کی دھڑکن رُک جاتی ہے۔ 2011 ء تک ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو چکا تھا اور ہر ایک لاکھ چینی باشندوں میں سے قریب 16 حرکت قلب بند ہو جانے کا شکار ہوئے۔

اس مطالعاتی جائزے میں چین کے 162 ہسپتالوں کے ریکارڈ کوشامل کیا گیا۔ رپورٹ کے مصنفین اور طبی ماہرین نے تاہم کہا ہے کہ ہارٹ اٹیک یا دل کے دورے کے شکار افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ چین میں تمباکو نوشی کرنے والوں، شوگر یا ذیابیطس کے مریضوں اور ایسے افراد کی تعداد میں واضح اضافہ ہو چکا ہے جن کے خون میں کولسٹرول کی شرح معمول سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ہارٹ اٹیک کے سبب ہسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چینی باشندوں کو حاصل ہنگامی طبی امداد تک رسائی کی صورت حال بھی چند برسوں سے کافی بہتر ہو چکی ہے۔

چین کی اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کے ژنگ لی کہتے ہیں، ’’ہمیں معلوم ہے کہ گزشتہ دہائی ملک میں دل کے امراض میں غیر معمولی اضافے کا عشرہ تھی اور اس دوران چینی باشندوں میں دل کے دورے کے خطرات بہت بڑھ گئے تھے، جس کے سبب بیجنگ حکومت نے صحت عامہ کے شعبے میں بڑی اصلاحات متعارف کرائیں اور صحت کے لیے مختص ملکی بجٹ دگنا کر دیا گیا۔‘‘

Intensivstation der Herzchirurgie
فضائی آلودگی بھی چینی باشندوں کی صحت کے لیے نہایت مُضر ثابت ہو رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تازہ مطالعاتی جائزہ چین میں صحت عامہ کی صورتحال سے متعلق ایک کلیدی پہلو کو اجاگر کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں جامع اعداد و شمار یا تو اکثر ہوتے ہی نہیں یا پھر بہت مبہم ہوتے ہیں۔

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر کے پروفیسر گریگ اسٹون کہتے ہیں، ’’صحت سے متعلق ڈیٹا کی اشاعت چین میں صحت کے نظام میں بہتری کی طرف ایک اہم قدم ہے اور یہ ہزاروں افراد کی جانیں بچانے کا سبب بن سکتا ہے۔‘‘ پروفیسر گریگ اسٹون کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کی اشاعت سے چین کے مختلف علاقوں میں قائم ہسپتالوں کی اصل تعداد کا اندازہ ہو سکے گا اور اس حوالے سے ملک میں پایا جانے والا معاشرتی فرق بھی واضح طور پر سامنے آ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے والے ڈاکٹروں کو ’کارڈیئک ارَیسٹ‘ کے واقعات میں بہترین اور فوری علاج کے لیے مؤثر مشورے بھی دیے جا سکیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید