چینی امریکی تجارتی جنگ میں نایاب زمینی دھاتیں کلیدی ’ہتھیار‘
7 جون 2019کیمیائی طور پر جو مادے نایاب زمینی دھاتیں یا Rare Earth Metals (REMs) کہلاتے ہیں، وہ دراصل اتنے نایاب بھی نہیں ہیں، جنتے سننے میں لگتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی اسمارٹ فون کے بارے میں سوچیں، اپنے ہیڈ فونز پہنیں یا کسی الیکٹرانک آلے کی بیٹری کی بات کریں، تو آپ دراصل نایاب زمینی دھاتوں کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ یہی دھاتیں ان سب مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔
سترہ نایاب زمینی دھاتیں
نایاب زمینی دھاتیں کہلانے والے مادوں کی کل 17 اقسام ہیں، جن میں نیئوڈِم، لَینتھن اور سَیر جیسے کیمیائی مادے شامل ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب دھاتیں ہائی ٹیکنالوجی انڈسٹری کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ بات چینی حکمرانوں کو بھی پتہ ہے اور وہ اسے اپنے لیے بڑی آسانی سے امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ میں ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
چین کے لیے اسٹریٹیجک حوالے سے بہت فائدہ مند بات یہ ہے کہ یہ نایاب زمینی دھاتیں پوری دنیا میں زیادہ تر صرف چین سے نکالی اور وہیں پر صاف کی جاتی ہیں۔ انہیں عسکری نوعیت کے ساز و سامان میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بیجنگ امریکا کے ساتھ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اپنی تجارتی جنگ میں کس قدر اہم اور فیصلہ کن ہتھیار کا حامل ہے، اس کا صرف ایک شارہ چینی صدر شی جن پنگ نے چند ہفتے قبل اس وقت کرایا تھا جب انہوں نے وسطی چین کے صوبے گان ژُو میں REMs کی ایک فیکٹری کا دورہ کیا تھا۔
اس کے بعد بیجنگ میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ چین چاہے تو امریکا کو نایاب زمینی دھاتوں کی برآمد محدود یا بند بھی کر سکتا ہے۔ اس پس منظر میں اس سوال کا جواب کوئی راز نہیں بلکہ کسی بھی انسان کا عام سا اندازہ ہی ہو سکتا ہے کہ آیا بیجنگ امریکا کے خلاف ان نایاب زمینی دھاتوں کو اپنے سب سے بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے؟
'پھر نہ کہنا ہم نے تمہیں خبردار نہیں کیا تھا‘
چینی کمیونسٹ پارٹی واشنگٹن کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ میں اپنے موقف کے اظہار میں ایک اہم جملے کا استعمال کرنا نہ بھولی۔ یہ جملہ تھا: ''پھر نہ کہنا ہم نے تمہیں خبردار نہیں کیا تھا۔‘‘ تاریخ گواہ ہے کہ چینی حکومت یا کمیونسٹ پارٹی نے جب بھی یہ جملہ استعمال کیا ہے، اس کے بعد کوئی نہ کوئی بہت بڑا تاریخی واقعہ ضرور رونما ہوا ہے۔
مثال کے طور پر 1962ء میں بھی چین کی طرف سے یہی جملہ کہا گیا تھا، تو اس کے صرف چار ہفتے بعد چینی فوجی دستے بھارت میں داخل ہو گئے تھے اور چینی بھارتی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ پھر 1978ء میں جب بیجنگ نے ایک بار پھر یہی تنبیہی جملہ کہا تھا، تو اس کے صرف دو ماہ بعد چینی ویت نامی جنگ شروع ہو گئی تھی۔
چین کی انگلیاں 'امریکی سلامتی‘ کی رگ پر
اب اس جملے کی بیجنگ میں امریکا کے ساتھ تجارتی تنازعے کے حوالے سے ادائیگی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے واضح طور پر مراد نایاب زمینی دھاتوں کی امریکا کو برآمد میں کمی یا بندش بھی ہو سکتی ہے۔
لیکن امریکا شاید بیجنگ کے اس اقدام کا متحمل نہیں ہو سکے گا، اس لیے کہ یوں واشنگٹن کو یہ شدید خطرہ لاحق ہو گا کہ اس کی پوری کی پوری ہائی ٹیک انڈسٹری مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔
امریکی وزیر تجارت وِلبر رَوس کے بقول امریکا کے لیے مجموعی طور پر 35 دھاتیں اور خام زمینی مادے ایسے ہیں، جنہیں وہ اپنی 'اقتصادی اور قومی سلامتی کے لیے انتہائی فیصلہ کن‘ تصور کرتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان میں وہ 17 نایاب زمینی دھاتیں بھی شامل ہیں، جو امریکی کمپنیاں زیادہ تر چین سے درآمد کرتی ہیں۔ چین کو اس شعبے میں تقریباﹰ عالمگیر اجارہ داری حاصل ہے۔
کئی ماہرین کے بقول امریکا جن کیمیائی مادوں کو اپنی اقتصادی اور قومی سلامتی کے لیے فیصلہ کن اہمیت کا حامل قرار دیتا ہے، ان میں سے تقریباﹰ نصف اگر نایاب زمینی دھاتیں ہیں، تو واشنگٹن کے لیے اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ امریکا اپنے ہاں ان دھاتوں کا 80 فیصد تک حصہ درآمد کرتا ہے۔ مزید یہ کہ ان میں سے 14 نایاب زمینی مادے تو امریکا صرف اور صرف چین سے درآمد کرتا ہے۔
یورپ کا انحصار بھی چین پر
نایاب زمینی دھاتوں کے بارے میں یورپی ممالک کی صورت حال یہ ہے کہ وہ بھی اپنے ہاں یہ انتہائی ناگزیر صنعتی دھاتیں درآمد کرتے ہیں اور تقریباﹰ صرف چین سے ہی۔ اس طرح اس جنگ میں یورپ بھی امریکا کی کوئی مدد نہیں کر سکے گا۔
یورپ ایسا کر بھی کیسے سکتا ہے؟ پوری دنیا میں نایاب زمینی دھاتوں کے قدرتی ذخائر کا ایک تہائی سے زیادہ تو صرف چین میں ہی پایا جاتا ہے۔ باقی ممالک جہاں یہ ذخائر پائے جاتے ہیں، زیادہ تر اس ٹیکنالوجی سے بھی محروم ہیں، جس کی مدد سے ان دھاتوں کو صاف کر کے قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔