1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی سیاحوں کی یورپ آمد سست روی کا شکار کیوں؟

12 فروری 2023

کووڈ انیس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ چینی سیاح دوبارہ یورپ کا رخ کریں گے لیکن سیاحتی مقامات پر کی جانے والی رہائشی و دیگر تفریحی سہولیات کی بکنگ کی تعداد اس حوالے سے حوصلہ افزا نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4NDa3
Italien Venedig | Chinesische Touristen vor dem Markusdom
تصویر: Norbert Schmidt/dpa/picture alliance

چین میں کووڈ انیس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کے بعد اب یہ امید کی جا رہی ہے چینی سیاح دوبارہ یورپ کا رخ کریں گے، حالانکہ ان متوقع مہمانوں کی جانب سے یورپی سیاحتی مقامات پر کی جانے والی بکنگز کی تعداد اس حوالے سے کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں ہے۔
کورونا وائرس کے بعد عائد کی گئی پابندیاں تین سال تک چینی باشندوں کے سفر کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنی رہیں اور ان میں کمی کے بعد سے بالآخر چینی سیاح اب وطن واپسی پر تین ہفتے قرنطینہ میں گزارنے کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن سیاحت کے لحاظ سے اس حوصلہ افزا پیش رفت کے نتائج ابھی تک یورپ میں نہیں دیکھے جا سکے ہیں۔
اس کی ایک مثال جرمنی کے علاقے باویریا میں واقع تاریخی نیوشوانسٹائن قلعے پر چینی زبان مینڈیرن میں دیے جانے والے گائیڈڈ ٹور کی کم تعداد میں بکنگ ہے۔ باویریا کے محکمہ برائے محلات کے مطابق ابھی تک چند ایک سیاحی گروپوں نے ہی یہ ٹور بک کرائے ہیں جبکہ ماضی میں اکثر چینی سیاح نیوشوانسٹائن لازماﹰ دیکھنے آتے تھے اور کووڈ انیس کی وبا سے پہلے اس قلعے پر 20 فیصد گائڈڈ ٹور مینڈیرن میں دیے جاتے تھے۔


اس حوالے سے جرمنی کے چائنا آؤٹ باؤنڈ ٹورازم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مینجنگ ڈائریکٹر وولف گینگ آرلٹ کہتے ہیں کووڈ انیس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کے باوجود چینی سیاحوں کی بڑی تعداد میں یورپ آمد کے امکانات فی الحال کم ہیں۔ ان کے مطابق اس صورتحال میں ایسٹر کے تہوار تک کوئی تبدیلی متوقع نہیں کیونکہ چینی مسافروں کو اب بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ 
آرلٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ چین میں کووڈ انیس کے کیسز کی تعدادابھی بھی بہت زیادہ ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر جنوری کے اوائل میں یورپی یونین کے رکن ممالک نے کووڈ انیس کے ٹیسٹ کو چین سے آنے والی فلائٹس کے تمام مسافروں کے لیے لازمی بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے علاوہ چین میں جرمن حکام فی الحال صرف ان لوگوں کو ویزا دے رہے ہیں جن کے پاس سفر کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ ہو اور سیاحت کو ایسا جواز تصور نہیں کیا جاتا۔
جہاں ان اقدامات میں نرمی چینی سیاحوں کی یورپ کے سفر کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہو سکتی ہے وہیں آرلٹ نے ایئر لائنز کے بتدریج چین سے یورپ آنے والی فلائٹس کے تعداد بڑھانے پر بھی زور دیا ہے۔

چین، ایک بڑی سیاحتی منڈی

اس وقت چین میں 10  مقبول ترین سیاحتی مقامات میں صرف ایک یورپی ملک اٹلی شمار ہوتا ہے، جہاں سن 2019ء میں چھٹیاں گزارنے آنے والے چینی باشندوں کی تعداد 3.2 ملین سے کچھ کم تھی۔ دیگر یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ چین میں 20 مقبول ترین سیاحتی مقامات میں شمار ہوتے ہیں جبکہ ایشائی ممالک کی مقبولیت ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

کورونا کے سبب یورپ اورایشیا کا سنگم ’ترکی‘ سیاحوں سے محروم رہا
لیکن یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یورپ کا سفر کرنے والی چینی سیاحوں کی تعداد دنیا کے دوسرے خطے سے آنے والے مسافروں کے مقابلے میں عموماﹰکم ہی رہی ہے۔ اس کے باوجود اسپین میں سیاحت کی تشہیر کے ذمے دار حکومتی ادارے توریسپانا کے ایک ترجمان کا کہنا ہے ان کی چینی سیاحوں کی آمد سے وابستہ امیدیں بہت زیادہ ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ چینی سیاح عموماﹰ شاہ خرچ ہوتے ہیں۔ 
وولف گینگ آرلٹ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ چینی سیاح کسی بھی ملک صرف چھٹیاں گزارنے نہیں جاتے، "بلکہ وہ محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ چیزیں دیکھنا اور تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ سیاحتی مقامات کو اور زیادہ لوگوں کے لیے پر کشش بنانے کا ایک نہایت ہی اچھا موقع ہے۔‘‘
اس وقت چینی باشندے دنیا میں سیاحت کی سب سے بری مارکیٹ ہیں اور اسی لیے جرمن نیشنل ٹرسٹ بورڈ سمیت سیاحت سے متعلقہ کئی ادارے چینی سیاحوں کی آمد میں ممکنہ اضافے کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔
آرلٹ کے مطابق سن 2019ء میں 170 ملین افراد نے چین سے بین الاقوامی سفر کیا اور رواں سال وہاں سے 110 ملین افراد کا بین الاقوامی سفر متوقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سن 2030 تک یہ تعداد 228 ملین تک بڑھ سکتی ہے۔
جوناس مارٹینی ( م ا، ش ر)