چینی علاقے سنکیانگ میں تازہ خونریزی، بارہ ہلاکتیں
26 جنوری 2014بیجنگ سے موصولہ خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹوں میں سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکام نے ملک کے ایک سرکردہ ماہر تعلیم پر عسکریت پسندوں کی مدد کا الزام عائد کیا یے۔
ہفتے کی شام ملنے والی اطلاعات کے مطابق چینی پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم جمعے کو اس وقت ’دہشت گردوں‘ کے ایک ایسے گروپ کے حملے کی زد میں آ گئی جس کے ارکان نے یکدم ان اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے دھماکا خیز مواد پھینکنا شروع کر دیا تھا۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس علاقے کے بعد پولیس اہلکاروں نے حملہ آوروں پر فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں چھ حملہ آور مارے گئے جبکہ پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس واقعے میں صرف ایک پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوا۔
سنہوا کے مطابق ان خونریز واقعات نے چین کے زیادہ تر مسلم آبادی والے علاقے سنکیانگ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سنکیانگ میں حالیہ برسوں کے دوران کئی ایسے خونریز واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کی ذمے داری حکام مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک یا ETIM کے علیحدگی پسندوں کے سر ڈالتے ہیں۔ اس کے برعکس کئی ماہرین اور انسانی حقوق کے ادارے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں کہ چین میں مسلمان علیحدگی پسندوں کا ایسا کوئی منظم گروپ موجود ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق سنکیانگ میں گزشتہ برس اپریل سے لے کر اب تک خونریزی کے بہت سے واقعات میں کئی پولیس اہلکاروں سمیت 100 کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی حکام نے اب تک بہت بڑی ایغور نسلی اقلیت کے باعث درپیش خطرات کو ہمیشہ بڑھا چڑھا کر ہی پیش کیا ہے۔ ایغور نسل کے باشندے چین کے ایسے مسلمان ہیں، جو ترکستانی زبان بولتے ہیں۔ ہیومن رائٹس گروپوں کے مطابق چینی حکام نے ایغور آبادی کے حوالے سے اپنا موجودہ موقف اس لیے اپنایا ہے کہ توانائی کے ذرائع سے مالا مال اس علاقے میں قدرتی وسائل پر حکومتی کنٹرول کو مسلسل یقینی بنایا جا سکے۔
عوامی جمہوریہ چین کے اس علاقے کی سرحدیں، پاکستان، بھارت اور ماضی میں سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہنے والی وسطی ایشیائی ریاستوں سے ملتی ہیں۔
اس پس منظر میں کرغزستان میں بارڈر گارڈز کی طرف سے ابھی جمعے کے روز ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ چین میں ایغور مسلمانوں کے ایک عسکریت پسند گروپ کے گیارہ ارکان کو کرغزستان میں اس وقت گولی مار دی گئی، جب وہ چین سے غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے کالعدم سوویت یونین کی اس سابق جمہوریہ میں ابھی داخل ہوئے تھے۔
دوسری طرف سنکیانگ کے علاقائی دارالحکومت اُرمچی میں پولیس نے بتایا کہ بیجنگ میں رہنے والے اقتصادیات کے مشہور پروفیسر الہام توہتی سے اس وقت اس بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے کہ آیا وہ ETIM کی مدد کرتے ہوئے سنکیانگ کی آزادی کی تحریک کو ہوا دے رہے ہیں۔
پروفیسر الہام کو چینی حکام نے گزشتہ ہفتے بیجنگ میں حراست میں لے لیا تھا۔ ان کی گرفتاری پر امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ پروفیسر الہام چین میں ایغور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم سب سے بلند آواز شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔