پاکستانی کسانوں کی ڈرون ٹیکنالوجی سے مدد کرنے والی سٹارٹ اپ
16 جولائی 2023سن 2022ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی براہ راست یا بالواسطہ طور پر زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ ورلڈ بینک کے حالیہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اپنے اثرات میں شدید ہوتی جا رہی ماحولیاتی تبدیلیوں اور خاص کر مون سون کی بارشوں میں غیر معمولی کمی بیشی ہوتے رہنے سے بالخصوص پاکستان کے شمالی علاقوں میں زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی
’کلام فار سولیوشنز‘ (Kalam4Solutions) خواتین کی ایک ٹیم پر مشتمل ایک ایسی سٹارٹ اپ کمپنی ہے، جو دیہی علاقوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما کسانوں کی جدید ڈرون ٹیکنالوجی سے مدد کر رہی ہے۔ اس کمپنی کی بانی سربراہ روزینہ صالحہ سے ڈی ڈبلیو نے خصوصی گفتگو کی:
’کلام فار سولیوشنز‘ ہے کیا؟
روزینہ صالحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے 'کلام فار سولیوشنز‘ کی بنیاد 2018ء میں رکھی تھی اور تب ان کی ٹیم میں زیادہ ترخواتین ہی تھیں۔ اس سٹارٹ اپ کے قیام کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پاکستانی دیہی علاقوں میں کسانوں کی مدد کرنا تھا تاکہ یوں نہ صرف وقت اور توانائی کی بچت ہو سکے بلکہ زرعی پیداوار کو بھی آسانی سے بڑھایا جا سکے۔
پاکستانی معیشت میں زیتون کی کاشت کی اہمیت
روزینہ صالحہ کے مطابق ڈرونز کو دنیا بھر میں زراعت میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ سائنسی جریدے 'ایگریکلچر‘ میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے نتائج کے مطابق دنیا بھر میں ڈرونز کی مدد سے فصلوں پر مختلف اقسام کی کھاد اور جراثیم کش ادویات کا سپرے کرنے کے رجحان سے زرعی پیداوارمیں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ممکن ہوا کہ ایک ڈرون سے ایک دن میں دس انسانوں کے برابر کام لیا جا سکتا ہے۔
اس سٹارٹ اپ کے قیام کا خیال کیسے آیا؟
روزینہ صالحہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 2018ء میں یہ کمپنی قائم کرنے سے قبل وہ بہت اچھی تنخواہ پر ملازمت کر رہی تھیں ۔ مالی طور پر زندگی پرسکون تھی اور آسودہ بھی، اس لیے ان کی ایسی کوئی خواہش بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے ارد گرد معاشرتی تبدیلی اور بہتری کے لیے کوئی کوششیں کریں۔ پھر ان کی سوچ میں اچانک ایک موڑ اس وقت آیا، جب وہ نیشنل انکیوبیشن سینٹر سے منسلک ہو گئیں۔
پاکستان میں تیزی سے پھیلتی پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس دوران نےچھوٹے کاروبار چلانے اور مارکیٹ میں پائی جانے والی خامیوں اور امکانات سے متعلق بنیادی معلومات حاصل کر لی تھیں۔ تب انہیں سب سے زیادہ اسی سوچ نے متاثر کیا کہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں کم آمدنی والے طبقے کی مدد کی جا سکتی ہے۔
روزینہ صالحہ کے الفاظ میں، ''ہماری کمپنی کی ابتدائی ٹیم زیادہ تر خواتین پر مشتمل تھی۔ کاروباری ضروریات اور قانونی کارروائیوں میں بھی ہمیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ ہم ایک ایسی کمپنی کے قیام کے خواہش مند تھے، جس کی عالمی منڈی اور بزنس کمیونٹی میں بھی اپنی ہی ایک پہچان ہو۔ اس مقصد کے لیے ہم اپنے ادارے کے کام کو لے کر امریکہ، متحدہ عرب امارات اور جرمنی تک بھی گئے، اور ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنے کام کے باعث توقع سے کہیں زیادہ پذیرائی ملی۔‘‘
پاکستانی زراعت بھی لاک ڈاؤن سے متاثر
یہ سٹارٹ اپ کسانوں کی مدد کس طرح کرتی ہے؟
روزینہ صالحہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ان کے ادارے کے قیام کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کو پاکستان کے زیادہ سے زیادہ دیہات تک پہنچانا تھا۔ اب 'کلام فار سولیوشنز‘ کی ٹیمیں دو دو تکنیکی ماہرین اور دو دو ڈرون آپریٹرز پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ ٹیمیں اب تک مردان، صوابی اور رحیم یار خان میں کسانوں کو ان کی فصلوں پر کھاد اور زرعی ادویات کے سپرے کے لیے ڈرونز فراہم کر چکی ہیں اور یوں تین ہزار ہیکٹر رقبے پر سپرے کیا جا چکا ہے۔
ایک ڈرون پر لاگت
اس کمپنی کی سی ای او روزینہ صالحہ نے بتایا کہ ایک ڈرون پر تقریباﹰ 25 لاکھ روپے لاگت آتی ہے جبکہ کسانوں سے ایسے ڈرونز کے استعمال کے لیے فی ہیکٹر صرف دو ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
ایک لاکھ ایکڑ زرعی اراضی پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ
ایک ڈرون کی مدد سے ایک دن میں 40 ایکڑ زرعی رقبے پر سپرے کیا جا سکتا ہے جبکہ روایتی طور پر عام کسان آج بھی بڑے بڑے سپرے ٹیکنوں کو اٹھا کر ایک دن میں صرف ایک ایکڑ رقبے پر ہی سپرے کر پاتے ہیں۔ اس شعبے میں ڈرونز کے استعمال سے نہ صرف وقت اور توانائی کی بچت ہوتی ہے بلکہ زرعی پیداوار میں بھی بتدریج اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
ڈرونز کی مدد سے زراعت میں مزید کیا بہتری ممکن؟
روزینہ صالحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈرونز صرف فصلوں پر سپرے کرنے ہی میں مدد نہیں دیتے بلکہ دنیا بھر میں انہیں وسیع و عریض رقبے پر فصلوں کی مانیٹرنگ کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کی مدد سے فضائی جائزے لے کر فصلوں کو موسمیاتی تبدیلیوں یا بیماریوں سے پہنچنے والے نقصانات کو مانیٹر کر تے ہوئے بروقت مناسب اقدامات بھی کیے جاتے ہیں، جو بہت سود مند رہتے ہیں۔
’’اس مقصد کے لیے 'کلام فار سولیوشنز‘ کے ڈرونز پر بہت حساس سینسر لگے ہوتے ہیں، جن سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں کسانوں کی بہتر حفاطتی اقدامات کے لیے رہنمائی بھی کی جاتی ہے۔ اس طرح ہم نے مردان، صوابی اور دیگر علاقوں میں فصلوں کی پیداوارمیں چار سے پانچ فیصد تک اضافہ بھی نوٹ کیا ہے۔‘‘
'ہم 50 سال پیچھے چلے گئے‘، سیلاب اور سندھ کے کسان
روزینہ صالحہ کے مطابق فصلوں پر طاقت ور ادویات کے بہت زیادہ سپرے سے کسان پھیپھڑوں اور گردوں کے امراض کا شکار بھی ہونے لگے ہیں۔ لیکن ڈرونز کے ذریعے سپرے سے کسانوں کی صحت کی حفاظت میں بھی مدد مل رہی ہے۔
مستقبل کی پلاننگ کیا ہے؟
’کلام فار سولیوشنز‘ کی بانی سربراہ روزینہ صالحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی کمپنی ایک ڈرون تقریباﹰ 25 لاکھ روپے میں خریدتی ہے۔ اپنے اس پروگرام کو پنجاب اورخیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کے لیے انہیں مزید ڈرونز کی ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات سے کئی اسپانسرز اس حوالے سے دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں ۔ لیکن بیرون ملک سے مہنگے ڈرونز منگوانے کے بجائے اب اس سٹارٹ اپ کی توجہ اس بات پر بھی ہے کہ ان ڈرونز کے مختلف پرزے مقامی طور پر پاکستان ہی میں بنائے جائیں تاکہ سر مائے کی بچت بھی کی جا سکے۔
کسانوں کو ڈرونز کے استعمال سے کتنا فائدہ ہو رہا ہے؟
ڈی ڈبلیو نے روزینہ صالحہ کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ ایسے ڈرونز کو استعمال کرنے والے کسان خود کیا کہتے ہیں اور انہیں کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے کسان کلیم اللہ کریلے اور ٹماٹر کی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔
مشکلات کے شکار غریب پاکستانی کاشتکار
انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ صوابی میں زیادہ تر کسان پہلے تمباکو کاشت کیا کرتے تھے کیونکہ دیگر سبزیوں اور پھلوں کی کاشت ان کے لیے زیادہ منافع بخش نہیں ہوتی تھی۔ تاہم حالیہ چند برسوں میں یہی کسان جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ٹماٹر، کریلے اور دیگرسبزیاں کاشت کرتے ہیں اور پہلے سے زیادہ منافع کما رہے ہیں۔
کلیم اللہ کے مطابق پہلے کریلے کی فصل موسمی بیماریوں یا کیڑا لگ جانے سے خراب ہو جاتی تھی۔ اب وہ ڈرونز کی مدد سے کئی ایکڑ رقبے پر صرف چند روز میں ہی زرعی ادویات کا سپرے کر کے اپنی فصل کو خراب ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ڈرونز کے علاوہ ورٹیکل فارمنگ یا عمودی کاشت کاری جیسے طریقے بھی زرعی پیداوار بہتر بنانے میں بہت معاون ثابت ہو رہے ہیں۔