1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل ایئر پورٹ کا چارج سنبھالنے کی ترک پیشکش

20 جولائی 2021

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتہا پسند طالبان کی طرف سے انکار کے بعد بھی اس بارے میں طالبان سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ترکی کابل کے ہوائی اڈے کا چارج سنبھال لے گا۔

https://p.dw.com/p/3wiV9
Afghanistan Bundeswehr Flughafen Symbolbild
تصویر: AFP/O. Lang

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ وہ سخت گیر موقف رکھنے والے اسلام پسند طالبان گروہ کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات کا منصوبہ بنا رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل ایئر پورٹ کو فعال رکھنے کی تمام تر ذمہ داری ترکی سنبھال لے۔

اگرچہ طالبان کی طرف سے انقرہ کی اس پیشکش کو پہلے ہی رد کیا جا چُکا ہے، تب بھی ترک صدر نے' اپنی نیک خواہشات‘ کا اظہار کرتے ہوئے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اس بارے میں طالبان سے مذاکرات کریں گے۔

استنبول میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا،'' اللہ کی رضا سے، ہم دیکھیں گے کہ طالبان کے ساتھ ہماری یہ بات چیت ہمیں کس رُخ لے جاتی ہے۔‘‘

کابل ہوائی اڈے کی اہمیت

ترکی امریکا کے دفاعی اہلکاروں کے ساتھ اپنی اس پیشکش کے بارے میں کہ انقرہ کابل ہوائی ڈے کو محفوظ بنانے اور اسے فعال بنانے کے لیے تمام تر مدد اور تعاون فراہم کرے، ایک عرصے سے مذاکرات کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ کابل ایئرپورٹ کے نظام کو محفوظ، مستحکم اور فعال رکھنے کا عمل جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں سفارتی موجودگی برقرار رکھنے کے تناظر میں کلیدی اہمیت کا حامل اقدام ہے، خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب عشروں سے افغان سر زمین پر موجود مغربی طاقتوں کے فوجیوں کے انخلا کا عمل حتمی طور پر مکمل ہونے والا ہے۔

ترکی نے اپنے سینکڑوں فوجی افغانستان میں تعنیات کر رکھے ہیں تاہم ایک ترک سرکاری اہلکار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ افغانستان میں موجود ترک فوجی 'جنگی فوج کا حصہ نہیں ہیں‘۔

انقرہ واشنگٹن بات چیت

ترک صدر ایردوآن اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جون کے ماہ میں نیٹو سمٹ کے حاشیے پر پہلی براہ راست یا آمنے سامنے ملاقات میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

انقرہ اور واشنگٹن ترکی اور امریکا کی طرف سے نیٹو مشن کے لیے مالی اور رسد یا ذرائع نقل و حمل جیسے امور پر تبادلہ خیال کرتے آئے ہیں۔ اس امر کی تصدیق امریکا اور نیٹو اہلکاروں نے بھی کی ہے۔

طالبان کا انکار

گزشتہ ہفتے طالبان نے ترکی کی پیش کش کو رد کرتے ہوئے اسے 'قابل مذمت‘ قرار دیا تھا۔ عسکریت پسندوں کے اس گروپ نے کہا تھا، ''ہم کسی بھی غیر ملک کی فورسز کے اپنے وطن میں قیام کو، چاہے وہ کسی بھی بہانے سے کیا جائے، قبضہ تصور کرتے ہیں۔‘‘

ایردوآن نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ طالبان 'صحیح یا درست نقطہ نگاہ نہیں اپنا رہے ہیں‘۔ ترک صدر کا مزید کہنا تھا، ''ہماری نگاہ میں اس وقت طالبان کا نقطہ نظر یہ نہیں کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔‘‘ ایردوآن نے باغی گروپ، طالبان سے اپنا قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ک م / ع ب (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں