1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل بینک کے دیوالیے میں مغرب ملوث: کرزئی

12 اپریل 2011

کرزئی حکومت پر ایک عرصے سے بدعنوانی کے الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے جس کے سبب کابل اور مغربی ممالک کے مابین خاصہ تناؤ بھی پیدا ہوا چُکا ہے۔ افغانستان کے گوناگوں داخلہ مسائل میں کابل بینک اسکینڈل نے مزید اضافہ کر دیا۔

https://p.dw.com/p/10rlX
تصویر: DW/M.Jalalzai

یہ ملک پہلے ہی بڑھتی ہوئی طالبان بغاوت اور سیاسی معذوری کا شکار ہے۔ کابل بینک افغانستان کا وہ حساس اور اہم مالی ادارہ ہے جہاں افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تنخواہیں جمع ہوتی ہیں اور یہیں سے زیادہ تر سول ملازمین کو پے چک ملا کرتے ہیں۔ اس بینک کی تیزی سے ترقی میں سیاسی توڑ جوڑ کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔ کابل بینک کے تین سینئر شیئر ہولڈرز اور سابق ایکزیکٹوز ان دنوں زیرتفتیش ہیں۔ ان میں سے ایک مُحمد حسین ہیں جو، افغانستان کے فرسٹ وائس پریزیڈنٹ مُحمد قاسم فہیم کے بھائی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی کے بھائی محمود کرزئی بھی کابل بینک کے تین شیئر ہولڈرز میں سے ایک ہیں تاہم ان کے ساتھ کوئی تفتیشی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ صدر کرزئی نے کہا ہے کہ کسی غیر قانونی کارروائی میں ملوث ہونے کی صورت میں اُن کے بھائی محمود کرزئی کو بھی قانون کے حوالے کیا جائے گا۔

Symbolbild Korruption in Afghanistan
افغانستان میں کرپشن کے سبب کرزئی حکومت غیر معمولی دباؤ کا شکار ہےتصویر: AP

دریں اثناء حامد کرزئی نے کابل بینک اور بینکنگ کے نظام کو مستحکم بنانے کے لئے چند ٹھوس اقدامات کی تفصیلات بھی بتائی ہیں۔ کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کا ایک وفد ایشیا کے ان ممالک کا دورہ کر چکا ہے جو، 1990ء میں ایشیا میں آنے والے مالی بحران سے متاثر ہوئے تھے۔ ان میں جنوبی کوریا بھی شامل ہے۔

کرزئی نے یہ بھی کہا ہے کہ افغانستان کا مرکزی بینک امریکہ اور یورپی حکومتوں سے رجوع کرے گا تاکہ اُن پر زور دیا جائے کہ وہ نقد کی شکل میں افغانستان سے غیر ممالک بھیجی جانے والی رقوم واپس کریں۔ جبکہ کابل بینک کے دیوالیے سے متعلق منظرعام پر آنے والی زیادہ تر رپورٹوں میں بنیادی طور پر دُبئی اور افغانستان میں خرچ کی جانے والی رقوم کی بات کی گئی ہے۔

Symbolbild Hamid Karzai Karsai
کرزئی کے قریبی رشتہ داروں پر بھی بد عنوانی کے چارجز لگے ہوئے ہیںتصویر: AP

کرزئی کے بقول’ ہم کابل بینک کی انتظامیہ، قرضہ داروں اور دیگر متعلقہ شعبوں کے بارے میں مکمل تحقیق کر رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ رقم غیرملکوں تک کس طرح لے گئے اور یہ کہ آخر مخصوص انٹرنیشنل حلقوں کی طرف سے کابل بینک کی حوصلہ افزائی کس طرح کی گئی کہ وہ اپنے سرمائے کو غیر ملکی بینکوں میں مُنتقل کر دے‘۔

غیر ملکی سفارتکاروں نے اکاؤنٹگ فرم PricewaterhouseCoopers پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل یہ ادارہ کابل بینک کے اسکینڈل کے سامنے آنے سے چند ماہ قبل ہونے والے آڈٹ میں قرضہ داروں کے نامناسب رویے کا پتہ لگانے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم یہ معاملہ دو پرائیوٹ کمپنیوں کا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں