کابل حملہ: ہلاکتوں کی تعداد سو سے متجاوز، ایک روزہ قومی سوگ
28 جنوری 2018ملکی دارالحکومت کابل سے اتوار اٹھائیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کل ہفتے کے روز جنگ زدہ افغانستان کے دارالحکومت میں دوپہر کے کھانے کے وقت بارود سے لدی ایک ایمبولینس کے ذریعے جو بہت بڑا خود کش بم حملہ کیا گیا تھا، اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد آج ایک دن بعد مزید اضافے کے ساتھ 103 ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں کی کم از کم تعداد بھی 235 بنتی ہے۔
طالبان کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائی‘ کی ضرورت ہے، ٹرمپ
کابل حملہ، ہلاکتوں کی تعداد تریسٹھ ہو گئی
اس حملے کی ذمے داری اس دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد طالبان عسکریت ہسندوں نے قبول کر لی تھی۔ آج اس حملے کے چوبیس گھنٹے بعد کابل شہر میں ہر طرف خاموشی اور افسردگی کا ماحول تھا جبکہ صدارتی محل سمیت تمام اہم سرکاری عمارات پر صبح سے ہی قومی پرچم بھی سرنگوں رہا کیونکہ اس حملے میں اتنی زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع پر اٹھائیس جنوری کو قومی سطح پر ایک روزہ سوگ منایا جا رہا ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ یہ خود کش بم حملہ افغان دارالحکومت میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کیے جانے والے سب سے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں میں سے ایک ثابت ہوا ہے۔ اس پس منظر میں شہر میں ایسے مزید حملوں کے خطرے کی وجہ سے سکیورٹی معمول سے بہت زیادہ کی جا چکی ہے۔
افغانستان میں داعش کی کارروائی، اس بار نشانہ امدادی ادارہ
پاکستان: امریکی ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر ہلاک
کل کے اس حملے سے قبل گزشتہ بدھ کے روز ملک کے مشرقی حصے میں بچوں کی ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم ’سیو دا چلڈرن‘ کے دفاتر پر بھی ایک بڑا حملہ کیا گیا تھا، جس کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔
افغان حکام کے مطابق ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہی شدت پسند گروہ خاص طور پر کابل میں ایسے مصروف عوامی اور کاروباری مقامات پر مزید حملے بھی کر سکتا ہے، جہاں خاص طور پر غیر ملکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اسی سلسلے میں اضافی حفاظتی انتظامات کے ساتھ ساتھ افغان حکام نے آج اتوار کے روز ہی کابل شہر کے لیے ایک نئی وارننگ بھی جاری کر دی۔
کابل کے لگژری ہوٹل پر حملے کی ذمه داری طالبان نے قبول کرلی
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے آج بتایا کہ کل کے خود کش ایمبولینس بم حملے میں ہلاکتوں کی تعداد کئی ہسپتالوں میں مزید متعدد زخمیوں کی ہلاکت کے بعد اب 103 ہو گئی ہے جبکہ 235 زخمیوں کے شہر کے مختلف ہسپتالوں میں علاج جاری ہے۔
دریں اثناء افغانستان کے قومی سلامتی کے ڈائریکٹوریٹ یا این ڈی ایس کے سربراہ نے کہا ہے کہ طالبان عسکریت پسند اپنے حملوں میں جو تیزی لاتے جا رہے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں میدان جنگ میں بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔
سلامتی کونسل میں پاکستان اور امریکا کی افغانستان پر لفظی جنگ
انہوں نے کہا، ’’ایسے حملوں کیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ ملکی سلامتی کے انتظامات میں کوئی بہت بڑی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم نے بہت سے حملوں کو قبل از وقت روکا بھی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ حملوں کو روک سکنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔‘‘