کابل خود کُش حملہ: 80 سے زائد افراد ہلاک، داعش ذمہ دار
23 جولائی 2016طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے تاہم مقامی نیوز چینل طلوع لمر نے انٹیلیجنس کے حوالے سے خبر شائع کی ہے که اس حملے میں داعش کے حامی عسکریت پسند ملوث ہیں. خود داعش سے منسلک ایک ویب سائٹ عماق نے یہ خبر شائع کی ہے که نام نہاد 'دولت اسلامیه' کے دو جنگجووں نے کابل افغانستان میں 'شیعه' (افراد) کو نشانه بنایا ہے.
افغان مظاہرین، بالخصوص ہزاره برادری سے تعلق رکهنے والے ہزاروں افراد آج اس مظاہرے میں شریک تھے، جو کابل حکومت سے بجلی سپلائی کی ایک 500 کلو واٹ لائن کا راسته تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ ان کا پروگرام تها که مرکزی شهر میں واقع صدارتی محل 'ارگ' تک پہنچ کر وہاں لامحدود عرصے تک دهرنا دیا جائے. تاہم راستے ہی میں ایک مبینه خودکش حمله آور، جس نے بعض عینی شاہدین کے بقول برقعه پہن رکها تها، مظاہرے کے دوران خود کو دهماکے سے اڑا دیا.
صحت عامه کے ذرائع کے مطابق دهماکا دوپہر دو بجے کے قریب ہوا۔ اس حملے میں کم از کم اسی افراد کی موت کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکه ایک سو سے زائد افراد زخمی ہیں ۔ زخمیوں میں مظاہرین کی سکیورٹی پر مامور تین تهانوں کے انچارج بهی شامل ہیں .
سکیورٹی حکام نے قبل ازیں مظاہرین کو خبردار کیا تها که دہشت گردی کا خطره موجود ہے اور وه اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنے سے گریز کریں. یاد رہے که چند ہفتے قبل بهی اسی تنازعے کی بنیاد پر ہزاروں افراد نے مظاہره کیا تها تاہم اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعه پیش نہیں آیا تها.
'جنبش روشنائی' نامی یه تحریک ایک عرصے سے چل رہی ہے جس کا دعویٰ ہے که کابل حکومت لسانی تعصب کی بنیاد پر ہزاره برادی کے علاقے وسطی افغانستان کو نظر انداز کرتے ہوئے یه اہم پاور سپلائی لائن شمالی افغانستان سے گزار رہی ہے.
افغان حکومت کا البته موقف ہے که اول تو یه منصوبه سابق حکومت کا منظور کرده ہے، جس میں ہزاره برادری اور اس تحریک کے مرکزی قائدین شامل تھے، دوسرے یہ کہ اب مجوزه روٹ پر اتنا کام ہوچکا ہے که اب خود مرکزی اور دیگر صوبوں کا بهلا اسی میں ہے که روٹ تبدیل نه کیا جائے۔
مظاهرے کے منتظیمن نے عزم ظاہر کیا ہے که وه احتجاجی تحریک جاری رکهیں گے۔ احمد بہزاد، ’جنبش روشنائی‘ کے ایک رہنما، کے بقول مظاہرین حصول انصاف کے لیے جدوجهد جاری رکهیں گے اور جب تک حکومت اس منصوبے کے روٹ میں تبدیلی کا اعلان نہیں کرتی مظاہروں کا سلسله جاری رکها جائے گا۔
صدر محمد اشرف غنی نے مظاہرین پر ہوئے حملے اور اس باعث ہوئی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے. ایک بیان میں صدر غنی نے پر امن مظاہرے کو عوام کا جمہوری حق ٹهراتے ہوئے متعلقه حکام پر زور دیا که وه مثاترین کو بروقت اور بہترین طبی امداد مہیا کرنے کو یقینی بنائیں.
افغانستان میں اس سے قبل ہزاره کمیونٹی کی قیادت کافی حد تک متحد رہی ہے تاہم 'جنبش روشنائی' کے معاملے پر ان کی قیادت میں اختلافات ہیں۔ حکومت میں شامل صدر اشرف غنی کے نائب سرور دانش اور چیف ایگزیکٹیو کے نائب محمد محقق گرچه اوائل میں اس تحریک سے جڑے رہے تھے تاہم وه اس حالیه مظاہرے کے مخالف تھے.
واقعے پر تبصره کرتے ہوئے کابل میں جرمن غیر سرکاری ادارے فریڈرش ایبرٹ اشٹفٹنگ کے سربراہ الیکسی یوسپوف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که بظاہر ایسا لگتا ہے که حکومت نے سرکاری املاک کی سلامتی پر زیاده دهیان دیا اور مظاہرین کی سلامتی پر کم۔ ان کے مطابق اگر تو حکومت کو خبر تهی که خطره موجود ہے تو مظاہرے منسوخ کرنے یا لوگوں کی سلامتی کے لیے زیاده اور واضح اقدامات کیے جانے چاہیے تھے۔
’’واضح ہے که ہزارہ کمیونٹی نشانه بنی ہے مگر یه مجموعی طور پر افغان جمہوریت پر ایک حمله ہے، اور اگر اس میں واقعی داعش ملوث ہے تو یه حملہ افغانستان میں آینده مشرق وسطیٰ کی طرز کی فرقه ورانه کشیدگی کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘
انهوں نے ہزارہ برادری کی سیاسی قیادت کو بهی تنقید کا نشانه بناتے ہوئے انهیں عوام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کا ذمه دار ٹهرایا.