کابل کے وسط میں امریکی میزائل ہدف کے بجائے ایک گھر کو جا لگا
28 ستمبر 2017کابل سے جمعرات اٹھائیس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ہندوکش کی اس ریاست میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے عسکری امدادی مشن کی طرف سے بتایا گیا کہ افغان دارالحکومت میں عسکریت پسندوں کے خلاف یہ فضائی آپریشن امریکی فضائیہ کر رہی تھی، جس دوران فضا سے افغان زمینی دستوں کی مدد کی جا رہی تھی۔
بدھ ستائیس ستمبر کو رات گئے جاری کردہ نیٹو کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ کل بدھ ہی کے روز جب امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ اپنے ایک اچانک دورے پر کابل پہنچے تھے، اس کے فوراﹰ بعد عسکریت پسندوں نے کابل کے ہوائی اڈے کے فوجی حصے کی طرف کئی راکٹ فائر کیے تھے۔
میٹس اور اسٹولٹن برگ کی کابل آمد اور میزائل حملہ
’بھارتی فوجی بوٹوں کی چاپ افغان سرزمین پر سنائی نہیں دے گی‘
امریکی وزیر دفاع کا بھارتی دورہ، افغانستان اہم موضوع
بیان کے مطابق ان راکٹ حملوں کے بعد افغان آرمی کے دستوں اور ان کی مدد کرنے والی امریکی فضائیہ نے کابل میں اپنا ایک آپریشن شروع کر دیا، جس دوران فائر کیے جانے والے میزائلوں میں سے ایک کابل کے ایک رہائشی علاقے میں ایک مکان پر جا گرا۔
مغربی دفاعی اتحاد کے بیان کے مطابق، ’’بہت افسوس کی بات ہے کہ ایک میزائل نے درست کام نہ کیا اور اپنے ہدف کے بجائے ایک گھر پر جا گرا۔‘‘ نیٹو کی طرف سے اس حملے میں ہلاکتوں یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
تاہم کابل پولیس کے مطابق اس امریکی میزائل کے افغان دارالحکومت میں ایک مکان پر گرنے کے نتیجے میں کم از کم ایک شہری ہلاک اور گیارہ دیگر زخمی ہو گئے۔ اپنے ہی گھر میں اچانک اس میزائل حملے کی زد میں آ جانے والوں میں سے اکثر کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا گیا ہے۔
افغان صدر کی پاکستان کو امن مذاکرات کی دعوت
پاکستان کی طرف سے امریکا کے لیے سخت پالیسی، نتیجہ کیا ہو گا؟
امریکا کی عالمی طاقت کے زوال میں القاعدہ کا کردار
پولیس نے مزید بتایا کہ اس کارروائی کے دوران، جس کا ہدف طالبان عسکریت پسند تھے، کم از کم چار شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ کابل پولیس کے مطابق شہر میں شدت پسندوں کے خلاف یہ زمینی اور فضائی کارروائی سات گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہی۔
جیمز میٹس اور ژینس اسٹولٹن برگ کے کابل پہنچنے کے بعد شہر کے ایئر پورٹ پر میزائل حملوں کی ذمے داری افغان طالبان اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش دونوں نے قبول کر لی تھی۔
افغانستان کی ’لامتناہی جنگ‘ کا ایندھن بننے والے بچے
ساڑھے تین ہزار اضافی امریکی فوجی افغانستان جائیں گے
امریکی وزیر خارجہ میٹس اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کابل پہنچنے کے بعد کل بدھ کے روز افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کرنے کے علاوہ امریکا اور نیٹو کے فوجی دستوں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔
ان ملاقاتوں کے بعد ان دونوں شخصیات نے ایک پریس کانفرنس میں امریکا کی افغانستان سے متعلق نئی عسکری پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا ہندوکش کی اس ریاست میں جلد ہی اپنے مزید تین ہزار فوجی تعینات کر دے گا۔ اس کے علاوہ نیٹو کے دیگر رکن ممالک کی طرف سے بھی افغانستان میں ان ریاستوں کے دستوں کی تعداد میں کچھ اضافہ کر دیا جائے گا۔