کابل ہوٹل پر حملہ: ’وہاں عیاشی و فحاشی کا اڈہ تھا‘، طالبان
1 اگست 2016جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کابل پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرحمان رحیمی نے بتایا کہ یہ پولیس اہل کار اُس وقت زخمی ہو گئے، جب باغیوں نے اُس شگاف سے ہوٹل میں اندر داخل ہونے کی کوشش کی، جواُن کی طرف سے بارود سے بھرے ایک ٹرک کو دھماکے سے اُڑائے جانے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔
سن 2013ء میں بھی ایک حملے کا نشانہ بننے والا ’نارتھ گیٹ‘ ہوٹل کابل کے ہوائی اڈے سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہاں عام طور پر غیر ملکی کنٹریکٹرز رہائش پذیر ہوتے ہیں اور اسی لیے اس کی حفاظت کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ ہوٹل ایک ایسا مرکز بھی ہے، جہاں سے افغان دارالحکومت میں خدمات انجام دینے والے غیر ملکی فوجی عملے کو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں مطلوبہ مدد اور ساز و سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے اس حملے کی ذمے دری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ہوٹل کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ یہ جگہ ’غیر ملکی حملہ آوروں کے لیے عیاشی اور فحاشی کا اڈہ تھی‘۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں ایک سو سے زیادہ ’امریکی در انداز‘ مارےگئے۔
سات گھنٹوں تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے کے بعد آج علی الصبح پولیس کے ریگولر اور اسپیشل یونٹوں نے ہوٹل میں موجود باقی ماندہ دو حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا۔ جائے واقعہ کو ہر طرح سے محفوظ بنانے کی کوششوں میں نیٹو سے تعلق رکھنے والی فورسز بھی شامل تھیں۔
اگرچہ کابل پولیس کے سربراہ رحیمی کے بقول ہوٹل میں مقیم کسی افغان یا غیر ملکی کو اس حملے کے نتیجے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا تاہم ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس ابھی بھی اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا کسی عام شہری کو بھی اس جگہ ہونے والے دھماکے کے باعث کوئی نقصان پہنچا ہے۔ حملے کے وقت ہوٹل میں گیارہ غیر ملکی موجود تھے، جنہیں دیگر کے ہمراہ فوراً ہی ہوٹل کے اندر محفوظ کمروں میں منتقل کر دیا گیا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ حملہ گزشتہ نصف شب کے بعد مقامی وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے شروع ہوا، جب سارا متعلقہ علاقہ دستی بموں کے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں سے گونج اُٹھا۔ ان دھماکوں کے فوراً بعد افغان کمانڈوز نے اس پورے علاقے کی ناکہ بندی کر دی تھی۔ ڈی پی اے کے مطابق جنرل رحیمی نے بتایا:’’پولیس کی دو گشتی گاڑیاں ابتدائی دھماکے کے فوراً بعد موقع پر پہنچ گئی تھیں۔‘‘