کراچی: حکومت کی نظر مسائل کی بجائے، سیاسی مفادات پر
12 جولائی 2011گزشتہ ایک ہفتے سے اورنگی ٹاﺅن کی کٹی پہاڑی اور ملحقہ قصبہ کالونی کے رہائشی چین کی نیند نہیں سو سکے ہیں۔ روزانہ فائرنگ ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ فائرنگ گھنٹوں جاری رہتی ہے۔ صرف گزشتہ چار دنوں میں سو سے زائد افراد لقمہِ اجل بن چکے ہیں۔ رینجرز کی آمد نے کچھ سکون کے لمحے ضرور پیدا کیے ہیں لیکن امن ابھی تک بحال نہیں ہوا۔
شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے حکومتی انتظامی اقدامات کو شہر کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے حکومت سے علحدگی اختیار کر لی ہے۔ دوسری جانب اب سندھ حکومت کے لیے مزید آسان ہوگیا ہے کہ وہ پرویز مشرف کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کو ختم کر کے انگریز وں کے بنائے ہوئے کمشنری نظام کو ایک بار پھر سے نافذ کردے۔ لیکن لوگ اس نئی صورتحال سے بہت زیادہ مطمئن نہیں نظر آتے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماءکہتے ہیں کہ اس طرح حکومت نے دہشتگردی کی آڑ لے کر لوگوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ اس نے سندھ کے لوگوں سے کیا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ کراچی کی ضلعی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے پانچ اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں سندھی اکثریت والے ضلع ملیر کی تشکیل ان کے حامیوں کے لیے ایک بڑی فتح ہے۔
شہر کے حالات پر ان تمام اقدامات کا کیا اثر پڑے گا ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب ہر کوئی مختلف دیتا ہے۔ سینئر صحافی عمران شروانی کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں گو کہ حکومت زیادہ پر عزم نظر آتی ہے لیکن شہر کے امن کے حوالے سے ان اقدامات کا اثر الٹا بھی ہوسکتا ہے، ’’نظام پرانا ہو یا نیا، کراچی میں سیاسی بالادستی کی جنگ کے محرکات کچھ اور ہیں، جن میں کراچی کی قیمتی اراضی، محصولاتی آمدنی کی تقسیم اور اداروں پر کنڑول کی محاذآرائی نے انتظامی معاملات ہی نہیں بلکہ امن وامان اورکراچی کی شناخت کو بھی داؤپر لگادیا ہے۔‘‘
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت:امتیاز احمد