کراچی: پانچ دنوں میں ایک سو سے زائد انسانی جانیں ضائع
9 جولائی 2011سکیورٹی ذرائع کے مطابق قریب 157 مشتبہ دہشت گردوں کو اسلحہ سمیت حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان افراد سے پستولیں اور میشن گنیں برآمد ہوئی ہیں۔ جمعہ کی شب تک حکام نے لگ بھگ نوے افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ مقامی ذرائع کے مطابق ہفتہ اور جمعہ کی شب مزید کم از کم 13 افراد نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔
کشیدگی کی لہر شہر کے جنوبی حصے تک پھیلنے کی اطلاعات ہیں، جہاں دکانوں کو جلانے اور فائرنگ کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق مسلح گروہوں کے مابین شہر کے کاروباری علاقوں جوڑیا بازار، رنچھوڑ لائن اور صرافہ بازار پر کنڑول کی بھی لڑائی ہورہی ہے۔
جمعہ کو متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے یوم سوگ اور ٹرانسپورٹ برادری کی جانب سے احتجاج کے سبب شہر بھر میں معمولات زندگی متاثر رہے۔ آج ہفتہ کو شہر کے متاثرہ مغربی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے اضافے دستوں کی آمد کے بعد دکانیں کھلیں۔ سلامتی کی مخدوش صورتحال کے سبب اورنگی اور بنارس کے آس پاس کے علاقوں میں گزشتہ کئی روز سے دکانیں بند تھیں۔ کراچی میں متعین نیم فوجی رینجرز کے ترجمان نے قصبہ کالونی سے سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کا بیان جاری کیا ہے۔
رینجرز کو گھر گھر تلاشی کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ گزشتہ روز صوبائی وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے منظور وسان شہر میں قیام امن کو اپنی اولین ترجیح قرار دے رہے ہیں۔
دریں اثنا ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شہر میں قیام امن کے لیے حکومتی لائحہ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایشیا پیسیفک کے لیے اس تنظیم ڈائریکٹر سام زریفی کے بقول سکیورٹی فورسز کو یہ اجازت دینا کہ وہ مشتبہ افراد کو دیکھتے ہی گولی مار دیں، شہر کو جنگ زدہ قرار دینے کے مترادف ہے۔
سامی زریفی نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس کے مطابق، ’’ پاکستانی فوج کے انسانی حقوق کی پامالیوں کے سابقہ ریکارڈ کو نظر میں رکھتے ہوئے انہیں ایسی اجازت دینا، بحران میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے، اس سے لاقانونیت اور ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘‘ ان کے بقول ایسے احکامات اس بات کی علامت ہیں کہ حکومت اپنی سکیورٹی فورسز کو قانون سے بالاتر سمجتھی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ