کراچی میں خواتین قیدیوں کے لیے یوگا کی تربیت
19 اگست 2011کمزور جسامت، دوستانہ آنکھوں اور سنجیدہ چہرے والی صدف 1998ء سے یہاں قید ہے۔ اسے اغوا کے سلسلے میں یہ سزا سنائی گئی تھی، لیکن صدف کا کہنا ہے کہ وہ آج کل بہت پرُسکون اور پر اُمید محسوس کر رہی ہیں۔ وہ اس لیے خوش ہے کہ جیل میں انہیں یوگا کی تربیت فراہم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے قیدیوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔
صدف نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوے بتایا، ’’ اگرچہ میری زندگی میں کچھ نہیں بدلا تاہم اب میرے پاس کرنے کو یوگا ہے۔‘‘ صدف اور اس کے ساتھ دیگر قیدی خواتین گزشتہ ڈیڑھ سال سے یوگا انسٹرکٹر عائشہ چھاپڑا سے رضاکارانہ طور پر یوگا کی تربیت لے رہی ہیں اور یوں جیل کی سخت زندگی سے انہیں ایک اچھا ’’تصوراتی فرار‘‘ مل رہا ہے۔
کراچی میں خواتین جیل کی انتظامیہ نے یوگا پروگرام کی تعریف کی ہے۔ جیل کی ایڈمنسڑیٹر شیبا شاہ کا کہنا ہے کہ جب سے خواتین قیدیوں نے یوگا کی کلاسز لینا شروع کی ہیں ان کے رویے میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔
عائشہ چھاپڑا کو بھارت کی بدنام زمانہ بھوپال جیل میں یوگا کے اثرات نے متاثرکیا ہے۔ بھوپال جیل میں کافی پرتشدد واقعات رونما ہوتے تھے لیکن جب سے حکومت نے وہاں یوگا کلاسز کا آغاز کیا تشدد کے واقعات بہت بڑی حد تک کم ہوگئے اور قیدیوں کو اپنے غصے پر قابو کرنے کی عادت ہوگئی۔اس کے ساتھ بھارتی حکومت نے قیدیوں کو یہ ترغیب بھی دی ہے کہ جو قیدی تین ماہ تک یوگا کرے گا اس کی سزا میں پندرہ دن کی کمی کر دی جائے گی۔ پاکستان میں اب تک ایسا کوئی قانون نہیں۔
یوگا کے سبب انسٹرکٹر عائشہ کی زندگی پر بھی کافی مثبت اثر پڑا ہے۔ ان کے بقول ایک وقت ایسا بھی آیا جب لگا کہ زندگی نے ان سے سے منہ موڑ لیا ہو۔ عائشہ چھاپڑا ٹورانٹو میں سماجی کارکن کی حیثیت سے کام کرتی تھیں لیکن اپنے پڑوس میں منشیات کا استعمال اور پُرتشدد واقعات دیکھنے کے بعد وہ جون 2009ء میں پاکستان منتقل ہو گئیں ۔ اکتوبر 2009ء میں انہیں کراچی جیل میں یوگا کلاسز کرانے کی پشکش ہوئی۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ یوگا نے ان کی زندگی میں راحت اور زندہ رہنے کی اُمید بیدار کی ہے اور اسی کی مدد سے وہ دوسروں کی زندگی میں بھی سکون لانے کی کوشش کرتی ہیں۔
رپورٹ: سائرہ ذوالفقار
ادارت: شادی خان سیف