کراچی پھر خون ریزی کی لپیٹ میں
18 اگست 2011پولیس اور نیم فوجی رینجرز شہر کی سڑکون پر تعینات ضرور ہیں مگر حکومت کی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے دن دھاڑے اغوا کرکے قتل کرنے والوں کے خلاف کسی بھی کارروائی سے گریزاں ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ سعود مرزا نے پولیس افسران پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے سٰخت کارروائی کا دعوی کیا ہے مگران دعووں کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
کراچی شہر میں سرگرم سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اوراتحادی جماعت اے این پی اور ایم کیو ایم شہر میں بدامنی کا ذمہ دارجہاں ایک دوسرے کو ٹہراتے ہیں وہیں تمام سیاسی گروپوں کا دعوی ہے کہ شہر میں ہونے والی بدامنی کے پیچھے ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کے لوگ ہیں جبکہ یہ دعوی ایسا ہی ہے کہ اسکی ٹوپی اسکے سر اوراسکی ٹوپی اس کے سر۔
جبکہ اس کے برعکس جن کے پیارے بدامنی کی لہرکی نذرہوتے ہیں وہ ہسپتالوں میں پیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے صرف آہ و بکا کرسکتے ہیں۔ کراچی میں دوروز سے شہر کی سڑکوں پر دہشت گردوں کی طرف سے لاشیں پھینکنے کے سلسلے کی وجہ سے مردہ خانوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ کشت وخون کا یہ بازار کب تک گرم رہے گا حکومت اورمتعلقہ اداروں کے پاس ظفل تسلیوں اور سیاسی دعووں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
بدھ کی صبح پانچ مغوی نوجوانوں کی لاشیں مختلف علاقوں سے ملنے کے بعد لیاری میں کشیدگی پائی جاتی تھی۔ تاہم یہ اس کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا، جب کھارادر میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لیاری سے قومی اسمبلی کے سابق رکن واجہ کریم داد سمیت سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد قتل و غارت گری اور ہنگامہ آرائی نے شہر کے مختلف علاقوں کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔
لیاری سمیت شہر کے پرانے علاقوں پر مشتمل جنوبی ضلع اور ضلع غربی سے کئی درجن افراد اغوا کر لیے گئے۔ ان افراد کی لاشیں وقتاً فوقتاً بلدیہ ٹاون، شیر شاہ، لی مارکیٹ، گارڈن، ماڑی پور، منگھوپیر، اورنگی ٹاون، اور لیاری سے ملنا شروع ہو گئیں۔
کراچی میں قیام امن کے لیے اب نئی حکمت عملی بنانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ ساڑھے تین برس میں ناکامی سے دوچارحکمت عملی کا ذمہ دارکون ہے؟ عوام کی طرف سے خون ریزی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات اور دہشت گردوں کو منظرعام پر لانے کے مطالبات پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قتل وغارت گری کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے اور کراچی کی سڑکوں پر جاری موت کا رقص حکومت اور عدلیہ کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکام کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے۔
تمام تراقدامات کے باوجود کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں دستی بم حملوں اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انیس سو بانوے اور انیس سو پچیانوے کے خون ریز ادوار واپس لوٹ آئے ہیں۔ انسانیت سوز تشدد زدہ بوری بند لاشیں ملنا ایک بار پھر معمول ہوچلا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید/ کراچی
ادارت: عدنان اسحاق