کراچی کی فیکٹری میں آتش زدگی:KIK کی جرمن عدالت میں پیشی
13 مارچ 2015پاکستان کے جنوبی صنعتی شہر کراچی میں گیارہ ستمبر دوہزار بارہ کو ملبوسات بنانے والی ایک فیکٹری میں آگ لگ جانے کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے جمعے کو جرمن شہر ڈورٹمنڈ کی صوبائی عدالت میں زر تلافی کا مطالبہ درج کروا دیا ہے۔
اس بارے میں برلن میں انسانی حقوق کے ادارے میڈیکو انٹرنیشنل اور ECCHR نے اطلاعات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرمن عدالت میں درج کرایا جانے والا اپنی نوعیت کا پہلا سول مقدمہ ہے۔
جرمن ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KIK کو کراچی کی ملبوسات کی فیکٹری کے اُس حادثے کے سلسلے میں جرمن عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا، جس میں 260 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انسانی حقوق کے ادارے میڈیکو انٹرنیشنل کے مطابق یہ اقدام فیکٹریوں کے مالکین کے لیے مزدوروں کے حقوق سے متعلق اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے اور انہیں قانونی طور پر مزید پابند بنانے کے ضمن میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس کے ذریعے بیرون ملک کام کرنے والی جرمن کمپنیوں اور فیکٹریوں کو پیشہ ورانہ تحفظ اور لیبر قوانین کو تسلیم کرنے اور ان کی پاسداری کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
کراچی کی ٹیکسٹائل فیکٹری میں آتش زدگی کے واقعے کے سلسلے میں جرمن عدالت میں زر تلافی کے مطالبے کا مقدمہ دائر کرانے والے چار افراد میں سے ایک اُس حادثے میں بچ جانے والا شخص ہے جبکہ تین ہلاک ہو نے والوں کے لواحقین ہیں، جن میں ایک بیوہ خاتون بھی شامل ہے۔ اُس سانحے میں اس بیوہ کا ایک بیٹا بھی لقمہء اجل بن گیا تھا۔ ان چاروں نے فرداً تیس تیس ہزار یورو کے ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مقدمہ تمام متاثرین کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان کی نیشنل ٹریڈ یونین کی فیڈریشن کے نئے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ملبوسات بنانے والی فیکٹری میں آتش زدگی کے سانحے میں مرنے والوں کی تعداد 260 تھی جبکہ مزید 32 افراد شدید زخمی ہوئے تھے جن کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔
ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KIK کا ہیڈکواٹر جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے مضافات میں قائم ہے۔ 2012 ء میں آتش زدگی کے سانحے کا شکار ہونے والی فیکٹری " علی انٹرپرائزز" کو سب سے بڑا ٹھیکا جرمن ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KIK ہی سے ملا کرتا تھا۔ اس انٹرپرائز کے ذرائع کے مطابق اس فیکٹری کی پیداوار کا 70 فیصد ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KIK ہی کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ اس فیکٹری میں لگنے والی آگ کی وجوہات ہنوز غیر واضح ہیں تاہم یہ طے ہے کہ بہت سے مزدور آگ کے شعلوں میں جھُلس کر اور دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے کیونکہ فیکٹری کی کھڑکیاں سلاخ دار تھیں اور ایمرجنسی دروازے بند تھے۔
جرمنی میں ایک سول عدالتی مقدمہ اُسی صورت میں دائر ہو سکتا ہے، جب متاثرین کے لواحقین ایک انجمن قائم کر لیں۔ اس طرح وہ ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KIK کے ساتھ مزید مذاکرات اور اُس کی طرف سے 1000 یورو فی کس ہرجانے کی رقم کی پیشکش کو مسترد کر سکتے تھے۔ اس کی بجائے انہوں نے جرمن عدالت سے انصاف طلب کرتے ہوئے ایک مثال قائم کی ہے۔
میڈیکو انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیائی شاخوں کے رابطہ کار تھومس زائبرٹ کے بقول متاثرین کے لواحقین نے جرمن عدالت میں مقدمہ اس لیے بھی دائر کروایا ہے تاکہ فیکٹری میں آتشزدگی سے تحفظ کے لیے مطلوبہ اقدامات اور مناسب بندوبست میں پائے جانے والے نقائص کو دور کیا جا سکے اور متعلقہ افراد کو حادثے کی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے، ان کا احتساب ہو سکے، تاکہ مستقبل میں فیکٹری کے مزدورں کو اس قسم کے سانحے سے محفوظ رکھا جا سکے۔