1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرم ایجنسی: ’عسکریت پسندوں‘ کے حملے میں 18 افراد ہلاک

17 جولائی 2010

افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر مبینہ عسکریت پسندوں نے فائر کھول دئے، جس کے نتیجے میں کم از کم اٹھارہ افراد ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/ONr9
چند روز قبل ہی پشاور خودکُش بم حملے کی زد میں آ چکا ہےتصویر: AP

عینی شاہدین کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں یہ قافلہ پارہ چنار سے پشاور جا رہا تھا کہ راستے میں چار خیل کے علاقے میں ڈَڈقمر کے مقام پر نا معلوم افراد نے اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس حملے میں خود کار ہتھیاروں اور راکٹوں کے استعمال کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔

پارہ چنار سے پشاور کی طرف جانے والے اس قافلے میں شامل ایک شخص جمشید کا کہنا ہے کہ اُن دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا، جو سب سے پیچھے تھیں۔ اس حملے میں جمشید بھی زخمی ہوئے۔ حملے کے اس عینی شاہد کے مطابق حملہ آوروں نے آٹو میٹک ہتھیار استعمال کئے۔

Angriff auf US-Konsulat in Peshawar Pakistan
پشاور میں اپریل کے ماہ میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے بعد سکیورٹی کی صورتحالتصویر: Faridullah Khan

ایک قبائلی لیڈر مُسرت بنگش نے اس واقعے میں اٹھارہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ قبل از ایں ایک سرکاری عہدے دار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں اس قافلے پر حملے میں پانچ افراد مارے گئے ہیں۔ کرم ایجنسی سے پشاور کی طرف جانے والی سڑک پر عسکریت پسندوں کے حملوں کے خطرات کے پیش نظر مسافر گاڑیاں قافلوں کی صورت میں مقامی سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں سفر کرتی ہیں۔ تاہم سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ یہ قافلہ اپنے طور پر ہی سفر کر رہا تھا۔

دریں اثناء ’پارا ملٹری فرنٹئیر کورپس‘ کے ترجمان میجر فضل الرحمٰن نے بھی اس واقعے کی تصدیق کردی ہے۔ نیز مقامی انتظامیہ اور انٹیلی جنس افسران نے کہا ہے کہ اس تازہ ترین دہشت گردانہ حملے میں ہلاک شدگان کا تعلق کرم ایجنسی کی شیعہ برادری سے تھا۔ کرم ایجنسی کو پشاور سے ملانے والی سڑک عسکریت پسندوں اور پاکستانی فوج کے آپریشن کے سبب عموماً بند رہتی ہے۔ مسافروں کو صوبے خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور پہنچنے کے لئے افغانستان کے ذریعے یہ خطرناک راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اسی راستے سے گزرنے والے پاکستانی سیاحوں کی ایک بس پر چند روز قبل مبینہ افغان طالبان نے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں گیارہ پاکستانی شہری مارے گئے تھے۔

Anschlag in Pakistan auf Luxushotel
پشاور میں تشدد کی آگ کئی سالوں سے بھڑک رہی ہےتصویر: AP

ہفتے کی صبح ہونے والے اس حملے کے بعد پارہ چنار میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور ٹل پارہ چنار روڈ بند کر دی گئی ہے۔ کئی علاقوں سے کرفیو کے نفاذ کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں تاہم ان خبروں کی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

کرم ایجنسی کا علاقہ گزشتہ تین برسوں سے شیعہ سنی فسادت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی کُل آبادی کا بیس فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سن 1980ء سے اب تک اس مسلم اکثریتی ریاست میں کم از کم چار ہزار افراد فرقہ وارانہ فسادات کی بھینٹ چڑھے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں