1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کریمہ بلوچ کی موت مشتبہ حالات میں نہیں ہوئی، کینیڈین پولیس

23 دسمبر 2020

کینیڈا کے شہر ٹورانٹو کی پولیس نے واضح کیا ہے کہ اس نے بلوچ رہنما کریمہ بلوچ کی موت کو مشتبہ ہلاکت کے طور پر نہیں لیا ہے۔ پولیس نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ اس وقوعے میں مشتبہ حالات بظاہر دکھائی نہیں دے رہے۔

https://p.dw.com/p/3n9sT
Kanada Toronto Massenschießerei
تصویر: picture-alliance/The Canadian Press/C. Katsarov

ٹورانٹو پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اِس وقت کریمہ محراب بلوچ کی ہلاکت کی تفتیش غیر مجرمانہ موت کے طور پر کی جا رہی ہے۔ پولیس نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ اس وقوعے میں مشتبہ حالات بظاہر دکھائی نہیں دے رہے۔ پولیس کی خاتون ترجمان کیرولین ڈی کلوئٹ کے مطابق کریمہ اکثر و بیشتر ٹورانٹو کے ڈاؤن ٹاؤن میں واقع واٹر فرنٹ تک جایا کرتی تھیں۔

بلوچ خاتون ایکٹیوسٹ کی کینیڈا میں پراسرار موت

سینتیس سالہ بلوچ خاتون کی نعش ٹورانٹو کے ڈاؤن ٹاؤن کے ایک پانی کے تالاب سے ملی تھی۔ انہیں سن 2016 میں کینیڈا میں سیاسی پناہ دی گئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ کریمہ بلوچ صوبہ بلوچستان میں خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر ناقدانہ آواز بلند کرتی رہتی تھیں۔

Karima Baloch, pakistanische Menschenrechtsaktivistin
بلوچستان صوبے کے حقوق کی سرگرم کارکن مرحومہ کریمہ محراب بلوچتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

ایمنسٹی کا بیان

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کینیڈین شہر ٹورانٹو میں کریمہ بلوچ کی اچانک موت پر تشویش ظاہر کی ہے۔ اس نے بھی ٹورانٹو پولیس سے اس موت کی مکمل اور مؤثر تفتیش کا مطالبہ کیا تھا۔ ایمنسٹی نے یہ بھی کہا کہ تفتیش میں اس ہلاکت کی ذمہ داری جن پر عائد ہو انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی ضروری ہو گا۔ ایمنسٹی کا بیان ٹورانٹو پولیس کی سرکاری وضاحت سے قبل جاری کیا گیا تھا۔ایرانی سرحد کے قریب پانچ بلوچوں کی لاشیں برآمد

'کریمہ کی موت حادثاتی نہیں‘

کریمہ محراب بلوچ کے ایک قریبی دوست لطیف جوہر کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ ان کی موت کسی حادثے یا خودکشی کا نتیجہ ہے۔ جوہر کے مطابق کریمہ کے شوہر نے انہیں ایسے کچھ پیغامات دکھائے تھے، جن میں بیان کیا گیا تھا کہ کرسمس کے موقع ہر وہ ایک تحفہ وصول کریں گی۔

Pakistan Protest für Ammar Fayaz
پاکستان میں سرگرم کارکنوں اور حکومت مخالفین کی جبری گم شدگیوں پر عوامی احتجاج بھی کیا جاتا ہےتصویر: privat

جوہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے رشتہ داروں نے بھی اس موت کو حادثہ قرار دینے کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں بھی کریمہ کے چند دوست اور احباب کو اغوا کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ لطیف جوہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کریمہ ایک بہادر خاتون تھی۔میں بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے اغوا پر کیوں نہیں بولا؟

کریمہ کو ڈیپریشن نہیں تھا

کریمہ بلوچ کو نیند کی کمی کا سامنا تھا لیکن وہ بظاہر ڈیپریشن کی مریضہ نہیں تھیں۔ یہ ضرور ہے کہ حالیہ ہفتوں میں اُن کے معالج کی جانب سے بہتر نیند کے لیے انہیں نیند کی گولیاں کھانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کی تصدیق کریمہ کے دوست لطیف جوہر نے بھی کی ہے۔

دوسری جانب کینیڈا میں پاکستانی ہائی کمیشن نے وہاں کی حکومت سے رابطہ کر کے کریمہ بلوچ کی موت کی تفتیش بشمول موت کی وجہ کے حوالے سے ضروری معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ع ح/ ا ا (اے پی)