کشمیر: ہندو یاتریوں کے قتل کے پیچھے لشکر طیبہ، بھارتی پولیس
6 اگست 2017بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے اتوار چھ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق لشکر طیبہ وہی ممنوعہ عسکریت پسند گروپ ہے، جس پر نئی دہلی کی طرف سے 2008ء میں ممبئی میں کیے گئے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔
بھارتی پولیس کے مطابق کشمیر میں کئی ہندو یاتریوں کے قتل کا یہ واقعہ 10 جولائی کو پیش آیا تھا، جب اس علاقے میں امرناتھ کی یاترا کو جانے والے ہندوؤں کی ایک بس پر مسلح عسکریت پسندوں نے اچانک حملہ کر دیا تھا۔
بھارتی کشمیر میں لشکر طیبہ کا اعلیٰ کمانڈر ہلاک، ہنگامے شروع
بھارتی فوج کی نمازیوں پر فائرنگ، ایک کشمیری ہلاک، ایک زخمی
موبائل فون کے باعث سرزنش، بھارتی فوجی نے میجر کو قتل کر دیا
کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پولیس کے انسپکٹر جنرل منیر احمد خان نے اتوار کے روز صحافیوں کو بتایا کہ گزشتہ ماہ کیے گئے اس شدت پسندانہ حملے کی چھان بین مکمل کر لی گئی ہے۔ آئی جی پولیس کے مطابق تفتیش کے نتائج کے مطابق یہ حملہ لشکر طیبہ نے کروایا تھا، اور اس میں اس ممنوعہ تنظیم کو اس کے مقامی کشمیری حامیوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔
منیر احمد خان نے صحافیوں کو بتایا، ’’اس حملے میں ممنوعہ تنظیم لشکر طیبہ ملوث تھی اور ملزمان کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔‘‘ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کے سربراہ نے مزید کہا، ’’جب ہم نے تفتیش شروع کی، تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ ہندو یاتریوں پر یہ حملہ لشکر طیبہ کے ایک پاکستانی عسکریت پسند، اس کے دو دیگر ساتھیوں اور لشکر طیبہ کے ایک مقامی کشمیری عسکریت پسند نے مل کر کیا تھا۔‘‘
ہندو یاتریوں پر حملے میں لشکر طیبہ ملوث ہے، بھارتی پولیس
برہان وانی کی پہلی برسی کے موقع پر احتجاجی مظاہرے
کشمیر میں بھارت مخالف مسلح جدوجہد جاری رہے گی، صلاح الدین
انسپکٹر جنرل آف پولیس نے یہ بھی کہا کہ اس حملے میں جن تین افراد نے حملہ آوروں کی مادی مدد کی تھی، انہیں چھپنے کے لیے ٹھکانہ اور گاڑیاں بھی مہیا کی تھیں، انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ جولائی کی دس تاریخ کو یاترا کے لیے جانے والے ہندوؤں پر کیا جانے والا یہ حملہ 2000ء کے بعد سے ہمالیہ کے اس منقسم لیکن متنازعہ خطے میں کیا جانے والا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا حملہ تھا۔
اس حملے سے قبل آخری مرتبہ اسی نوعیت کا سب سے ہلاکت خیز حملہ 17 برس قبل اس وقت کیا گیا تھا، جب اسی طرح یاترا کے لیے جانے والے ہندوؤں کے ایک گروپ پر اچانک دھاوا بول کر مسلح عسکریت پسندوں نے دو پولیس افسران سمیت 32 افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ان بتیس ہلاک شدگان میں سے دو پولیس افسران کے علاوہ باقی تمام ہندو یاتری تھے۔