کشمیر سے متعلق متعدد تنظیموں پر بھارتی حکومت کے چھاپے
29 اکتوبر 2020بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے کشمیر میں یتیم خانوں، انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے دفاتراور غیر سرکاری فلاحی اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے تحت چھاپے کی کارروائی کی ہے۔ این آئی اے کا دعوی ہے کہ جن اداروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ مختلف فلاحی کاموں کے لیے چندہ جمع کرتے تھے تاہم اس رقم کا استعمال کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک کے لیے ہوتا رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ بہت سی تنظیمیں فلاحی کاموں کے نام پر جو پیسے جمع کرتی ہیں اس کا استعمال دہشت گردی کی معاونت کے لیے ہوتا ہے اور ایسی فنڈنگ کے سلسلے میں چھاپوں کی کارروائی کے دوران ان دفاتر سے الیکٹرانک آلات جیسی متعدد مشتبہ اشیاء برآمد کی گئی ہیں۔
حکومتی ایجنسیوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کے معروف ادارے 'کولیشن آف سول سوسائٹی' کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا جو انسانی حقوق کے حوالے سے ایک باوقار ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ معروف اخبار 'گریٹر کشمیر' سے وابستہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے دفتر کی تلاشی لی گئی اور متعدد انسانی حقوق کے کارکنان کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔ حکام نے پروینہ آہنگر کے گھر کی بھی تلاشی لی جو کشمیر میں ہونے والی جبری گمشدگیوں پر کام کرتی رہی ہیں۔ انہیں 2017 میں انسانی حقوق کا معروف رافٹو انعام بھی مل چکا ہے۔
بھارتی ایجنسیوں نے کشمیر میں 'فلاح عام ٹرسٹ، 'چیرٹی الائنس'، 'ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن'، 'جے کے یتیم فاؤنڈیشن'، 'سالویشن مومنٹ' اور 'جے کے وائس آف وکٹمز' جیسی غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ اسی سلسلے میں دہلی میں اقلیتی کمیشن کے سابق چیئر مین ظفرالاسلام خان کے دفتر کی بھی تلاشی لی گئی ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں اور سماجی کارکن بہت پہلے سے یہ آواز اٹھاتے رہے ہیں کہ مودی حکومت گزشتہ چند برسوں سے ان تمام آزاد تنظیموں کو بند کرنے کی کوشش میں ہے جو ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتی ہیں۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس حکومت کی کارروائیوں کی وجہ سے انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ اب بات صرف غیر سرکاری تنظیموں تک محدود نہیں ہے۔ ''اب تو حال یہ ہے کہ دانشور ہوں یا شاعر، سماجی کارکن ہوں یا پھر ادیب، جو بھی سوال اٹھا رہا ہے، تو اس کے خلاف یا تو غداری کا مقدمہ دائر کیا جاتا ہے یا پھر سیاہ قانون یو اے پی اے کے تحت اسے فوری طور پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے... تواب یہ ریاست مکمل طور پر آمریت میں بدل چکی ہے۔''
اس کارروائی کا آغاز گزشتہ روز ہوا تھا جب سرینگر میں این آئی اے نے 10 مقامات پر چھاپے مار کر تلاشی شروع کی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر بنگلور میں بھی اسی سلسلے میں ایک مقام کی تلاشی لی گئی ہے۔ این آئی کا دعوی ہے کہ بعض غیر سرکاری تنظیمیں بھارت اور بیرون ملک فلاحی کاموں کے نام پر فنڈز جمع کرتی ہیں اور پھر اس کا استعمال کشمیر میں علیحدگی پسند سرگرمیوں کے لیے ہوتا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ہند نواز رہنماؤں نے حکومت کی اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب بھارتی حکومت نے مخالف آوازوں کے دبانے کے لیے کیا ہے۔ پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''بھارتی حکومت کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی پر شیطانی کریک ڈاؤن کی یہ ایک اور مثال ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ حکومت کے ہاں میں ہاں ملانے کو تیار نہیں، این آئی اے انہیں ڈرانے اور دبانے کے لیے بی جے پی کی پالتو ایجنسی بن کر رہ گئی ہے۔''
پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے عوام میں خوف و ہراس کا ماحول مزید پیدا ہوگا۔ کشمیر کے ایڈیٹرز گلڈ نے بھی حکومت کی جانب اس طرح کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومتی اداروں اور غیر ریاستی ادارے سبھی مقامی میڈیاکو نشانہ بنانے اور بدنام کرنے کے لیے اس پر چھاپہ مارتے رہے ہیں۔''
فرانس کے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے لیے کام کرنے والے معروف صحافی پرویز بخاری کی رہائش گاہ کی بھی تلاشی لی گئی۔ این آئی اے کا کہنا ہے کہ اس کی توجہ معروف اخبار گریٹر کشمیر کے ٹرسٹ پر تھی اور اسی سلسلے میں اس کی تلاشی لی گئی۔ اس اخبار کے مالک فیاض کالو کو گزشتہ برس بھی ایجنسیوں نے طلب کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت کے آنے کے بعد سے ہی بھارت میں حقوق انسانی کی تنظیموں اور آزاد میڈیا اداروں کے لیے زمین تنگ ہوتی چلی گئی اور نتیجتاً سینکڑوں مقامی تنظیمیں بند پڑی ہیں جبکہ کشمیر میں آئے دن میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف کارروائی ہوتی رہتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، گرین پیس اور آکسفیم جیسے متعدد بین الاقوامی ادارے بھی اپنے آپریشنز کو محدود یا پھر مکمل بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے بھارتی حکومت سے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے حقوق کی پاسبانی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیوں پرگہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو دبانے کے بجائے ان کے تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ وہ اپنے فرائض اچھی طرح سے انجام دے سکیں۔