1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کی کوششیں

5 اگست 2021

برسلز میں یورپی پارلیمان کے سولہ اراکین نے کشمیریوں کے یوم سیاہ کی مناسبت سے یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن اور یورپی یونین خارجہ پالیسی چیف جوزف بورل کے نام ایک خط ارسال کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3yZME
Belgien Brüssel | EU-Gipfel, Sitzungssaal
تصویر: EU Council/Anadolu Agency/picture alliance

 

یورپی یونین کے ہیڈکواٹرز برسلز میں یورپی پارلیمان کے سولہ اراکین نے کشمیریوں کے یوم سیاہ کی مناسبت سے یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن اور یورپی یونین خارجہ پالیسی چیف جوزف بورل کے نام ایک خط ارسال کیا ہے۔

پانچ اگست 2019 ء کو بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے تاریخی فیصلے کے بعد سے دنیا بھر میں جہاں جہاں کشمیری باشندے آباد ہیں، وہاں اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیر کونسل یورپی یونین برسلز نے اس سال بہت سے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کروایا اور پانچ اگست کو بھی ایک بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کا انعقاد ہو رہا ہے۔

’کشمیری ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ بھگت رہے ہیں‘

اس سال 'کشمیریوں کے یوم سیاہ‘ کے موقع پر برسلز میں مقیم کشمیریوں، خاص طور سے سفارتی اور سیاسی طور پر فعال شخصیات نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر روشنی ڈالنے اور یورپی یونین کی سطح پر اس اہم تنازعے کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ اس سلسلے میں ایک غیر معمولی سفارتی پیش قدمی یہ رہی کہ یورپی پارلیمان کے 16 اراکین نے یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن اور یورپی کمیشن برائے انسانی حقوق کے نائب صدر جوزف بورل کے نام ایک خط ارسال کیا۔ جس میں کہا گیا کہ اس کا مقصد جموں و کشمیر میں انسانی حقوق اور انسانی فلاح و بہبود کی تشویشناک صورتحال کی طرف ان سفارتکاروں کی توجہ مبذول کرانا ہے۔

Josep Borrell
یورپی یونین خارجہ پالیسی چیف جوزف بورلتصویر: Johanna Geron/AP Photo/picture alliance

کشمیر کونسل یورپی یونین کے برسلز میں مقیم چیئرمین ای یو علی رضا سید نے اراکین یورپی پارلیمان کے اس مراسلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

مراسلے کے اہم نکات

یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن اوریورپی یونین خارجہ پالیسی چیف جوزف بورل کے نام یورپی پارلیمان کے 16 اراکین کی طرف سے بھیجے گئے مراسلے میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ ورلڈ رپورٹ 2021 ء کے ساتھ ساتھ یو این ہائی کمیشنر فار ہیومن رائٹس کے دفتر سے جاری ہونے والی 2018 ء اور 2019 ء کی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ ان دستاویز میں جموں و کشمیر کے باشندوں کی نا گفتہ بہ صورتحال پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی، پاکستان بھر میں جلسے اور ریلیاں

اس خط میں واضح الفاظ میں تحریر کیا گیا کہ 2019 ء میں نئی دہلی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کو ملکی آئین اور قانون کے تحت حاصل خصوصی 'نیم خودمختاری‘ حیثیت کے خاتمے کے بعد سے کشمیری عوام شدید گھٹن اور خستہ حالی کا شکار ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر کے باشندوں کی نقل و حرکت کو محدود کر  کے اور انہیں معلومات کی فراہمی تک پہنچنے سے دور رکھ کر، انہیں صحت کی سہولیات، تعلیم اور رائے کی آزادی کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس پر کورونا کی وبا نے ان کی زندگیوں کو مزید منفی انداز میں متاثر کیا ہے۔ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ صحافی اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر جو کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا چاہتے ہیں انہیں خاص طور سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اندھا دھند اور جبری حراستوں کا سلسلہ جاری ہے اور عوامی اجتماعات پر کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1973 کے سیکشن 144 (حکم امتناعی) کے تحت ہنوز پابندی عائد ہے۔

Belgien I Ursula von der Leyen
یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائنتصویر: Johanna Geron/AP/picture alliance

یورپی پارلیمان کے اراکین نے اپنی خط میں خاص طور سے ان سینکڑوں افراد، جن میں بچے اور جموں اور کشمیر کے متعدد قانون ساز بھی شامل ہیں، کے جبری قید پر سخت احتجاج کیا ہے۔ مزید برآں اعلیٰ یورپی سفارتکاروں کے نام اس خط میں لکھا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی سکیورٹی کی نازک صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے کیونکہ مقامی آبادی مسلسل جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور بھارتی شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ یہ صورتحال جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے مابین کشیدگی اور پورے خطے کے لیے عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے۔

مطالبات

یورپی پارلیمان کے 16 اراکین کی طرف سے یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن اور یورپی یونین خارجہ پالیسی چیف جوزف بورل کے نام خط میں مذکورہ بالا نکات کے پیش نظر مطالبہ کیا گیا ہے کہ یورپی پارلیمان کی طرف سے نئی دہلی حکومت تک برسلز میں مقیم کشمیریوں، خاص طور سے یورپی یارلیمان کے ان اراکین کی جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں تشویش اور غم و غصے کو پہنچایا جائے۔ جموں و کشمیر کے نہتے انسانوں کی صورتحال اور ان کے حقوق کی پامالی کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے۔

سب سے اہم مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں پائیدار امن کے لیے پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کے نمائندوں کے مابین مکالمت کو بروئے کار لایا جائے۔ اس کے لیے ان 16 اراکین یورپی پارلیمان نے اپنی خدمات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس مکالمت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بھارت، پاکستان اور کشمیریوں تمام فریقین کے ساتھ دوستانہ اور بہت اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔

کشمیر: 'سنگ بازوں‘ کو پاسپورٹ اور سرکاری ملازمت نہیں ملے گی

 Kashmir Conference in Brussels
برسلز میں یورپی پارلیمان میں منعقد ہونے والی کشمیر کانفرنستصویر: DW/S. Raj

کشمیر کونسل پورپی یونین کا بیان

چیئرمین کشمیر کونسل ای یو نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو ختم کروانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور اس دیرینہ مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا کر دار ادا کریں۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے علی رضا سید کا کہنا تھا،” اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی حالیہ رپورٹوں اور اب یورپی پارلیمنٹ کے سولہ اراکین کی طرف سے تازہ خط اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کشمیریوں پر ظلم کررہا ہے اور جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر ناجائز قابض ہے۔ عالمی برادری کو بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ کشمیریوں پر مظالم بند کرے اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی راہ ہموار ہوسکے۔"

 کشور مصطفیٰ