کپاس پیدا کرنے والے پاکستان میں چار ارب ڈالر کی کپاس درآمد
12 مئی 2016اس بارے میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسلام آباد سے جمعرات بارہ مئی کے روز اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ پاکستانی حکام کے مطابق خراب موسم کی وجہ سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں اس سال کپاس کی فصل کا حجم اور معیار دونوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس طرح ملک میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات تیار کرنے والے ان صنعتی اداروں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ بچا کہ وہ بیرون ملک سے کپاس درآمد کریں۔
لیکن روئٹرز کے مطابق پاکستانی معیشت کے لیے اسے افسوس کی بات ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا حصہ تو مجموعی قومی پیداوار کے قریب نو فیصد کے برابر بنتا ہے لیکن اسی شعبے کو اب کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے، حالانکہ روایتی طور پر پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کپاس کی پیداوار ہمیشہ سے اپنے حجم اور اعلیٰ معیار کے لیے مشہور رہی ہے۔
پاکستان میں کاٹن جِننگ، دھاگا اور فیبرک تیار کرنے کی صنعت میں ملک کے قدیم ترین اداروں میں شمار ہونے والے فضل گروپ کے منیجر آپریشنز محمود اسلم نے روئٹرز کو بتایا کہ انہیں اور ان جیسے دوسرے صنعت کاروں کو درآمدی کپاس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اضافی مشکلات کا سامنا ہے۔
محمود اسلم نے بتایا، ’’ہم اپنے پیداواری یونٹوں میں معمول کی طلب کو پورا کرنے کے لیے بھارت اور دیگر ملکوں سے کپاس درآمد کرتے ہیں۔ لیکن اب یہ بات بھی ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس درآمدی کپاس کی قیمتوں میں قریب 20 فیصد تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔‘‘
ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ پاکستانی صنعت کاروں کے بقول اس درآمدی کپاس کی قیمتوں میں اضافے کا ایک براہ راست نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ اب ان اداروں کے لیے خام مال کی قیمتیں اور مجموعی پیداواری لاگت قریب 30 فیصد تک بڑھ گئی ہیں اور یہ بات بالآخر متعلقہ صنعتی اداروں کے حتمی منافع پر بھی بری طرح اثر انداز ہو گی۔
محمد اسلم کے مطابق پاکستان میں اس وقت کپاس کی جو مقامی پیداوار مارکیٹ میں آتی ہے، اس میں بہت سا ایسا مواد بھی شامل ہوتا ہے، جو مجموعی طور پر اس زرعی جنس کو آلودہ یا ناخالص بنا دیتا ہے۔ ان کے بقول اس کی وجہ بہت خراب موسمی حالات ہیں، جن پر کپاس کے کاشت کاروں کا بھی کوئی بس نہیں چلتا۔ انہوں نے کہا، ’’اس وجہ سے جِننگ کے بعد کپاس کی فصل سے جو خام مال تیار ہوتا ہے، ہمارے لیے اس کا حجم کم اور لاگت زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘
پاکستان میں کپاس کی جِننگ اور ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ کئی صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ان کے بہت سے معمول کے غیر ملکی گاہکوں نے اب بھارتی، بنگلہ دیشی اور چینی کاروباری اداروں سے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کی نگران ملکی وزارت کی کپاس اور زراعت سے متعلق وفاقی کمیٹی کے مطابق اس سال ملک میں کپاس کی متوقع پیداوار کا تخمینہ 15.5 ملین گانٹھیں لگایا گیا تھا لیکن خراب موسمی حالات اور خشک سالی کے نتیجے میں یہ تخمینہ اب کم کر کے 10.9 ملین گانٹھیں کیا جا چکا ہے۔
اس کا سبب خاص طور پر ان پاکستانی علاقوں میں خشک سالی بنی، جو روایتی طور پر اس فصل کی پیداوار کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں کپاس کی فصل کا قریب 85 فیصد صوبہ پنجاب میں پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی ماندہ قریب 15 فیصد سندھ میں کپاس کی کاشت سے حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کے نائب صدر اور ملک کے کاٹن کمشنر خالد عبداللہ کے مطابق اس سال پاکستان کو اپنے ہاں کپاس کی داخلی ضروریات پورا کرنے کے لیے قریب چار بلین ڈالر کی کپاس درآمد کرنا پڑے گی، حالانکہ پاکستان خود چین، بھارت اور امریکا کے بعد دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔