1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ اب خطہٴ بلقان میں بھی؟

Rujevic, Nemanja / امجد علی 18 جون 2015

میڈیا رپورٹوں کے مطابق اب دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے بلقان کے خطّے میں آباد کئی ملین مسلمانوں پر بھی اثر انداز ہونے کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ حالات کتنے خطرناک ہیں، اس حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Fj9B
Propagandavideo IS Balkan
بوسنیا ہیرسیگووینا، سربیا، کوسووو، البانیہ اور مقدونیہ میں بسنے والے مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لیے بڑی محنت سے تیار کی گئی ویڈیو فلم کا ایک منظرتصویر: Propagandavideo Islamic State via Al Hayat/YouTube

’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اب یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ خطہّ بلقان میں مسلمانوں کو گزشتہ ایک سو برسوں کے دوران مسلسل استحصال کا سامنا رہا ہے اور یہ کہ کمیونسٹوں، صلیبی جنگجوؤں اور یہودیوں کے خلاف لڑائی میں واحد راستہ اُن کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ بڑی محنت سے تیار کی گئی ایک ویڈیو فلم میں بوسنیا ہیرسیگووینا، سربیا، کوسووو، البانیہ اور مقدونیہ میں بسنے والے مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ’کافر‘ ہمسایوں کو ہلاک کر دیں۔

اس ویڈیو میں ایک باریش نوجوان بوسنی زبان میں پکار رہا ہے: ’’اُن کی گاڑیوں اور مکانوں میں بارود رکھ دو۔ اُن کے کھانے میں زہر ملا دو، انہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے دو۔‘‘ اس فلم میں دہشت گردوں کو ایسے القابات بھی دیے گئے ہیں، جن سے اُن کی نسلی وابستگی ظاہر ہوتی ہے، مثلاً البوسنی، الالبانی، الکوسووی۔

مبالغہ آرائی یا حقیقت پسندی؟

پراپیگنڈا کا پہلا ہدف تو حاصل ہو گیا ہے کیونکہ خطّے کے تمام ذرائع ابلاغ کئی روز تک یہ خبریں نشر کرتے رہے کہ اب ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے خطہٴ بلقان کو اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنا لیا ہے۔ دہشت گردی سے متعلقہ امور کے بوسنی ماہر ولادو آزینووِچ کے مطابق میڈیا کی یہ توجہ انتہا پسندوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے آزینووِچ نے بتایا: ’’آئی ایس ٹویٹر پر ہر ہفتے دو لاکھ مختصر پیغامات روانہ کرتی ہے۔ تمام پیغامات میں اسی طرح مختلف زبانوں میں دھمکیاں دی گئی ہوتی ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اُنہوں نے بلقان کو اپنی خاص توجہ کا مرکز بنا لیا ہے۔‘‘

جرمن اخبار ’ویلٹ اَم زونٹاگ‘ نے بھی خبر دی تھی کہ انتہا پسند مسلمان مغربی بلقان میں تنظیم سازی میں مصروف ہیں اور نئے جہادیوں کو ابتدائی تربیت دے رہے ہیں۔ اخبار نے جرمن سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا، صورتحال اتنی تشویشناک ہے کہ یہ موضوع جرمن پارلیمان کی ایک کمیٹی کے ساتھ ساتھ جی سیون کی حالیہ سربراہ کانفرنس میں بھی زیرِ بحث آیا۔

بلغراد کی سیاسی علوم کی فیکلٹی سے وابستہ فیلیپ آئیدوس کے مطابق ’آئی ایس‘ کی طرف سے درپیش خطرے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ اُن کے خیال میں بلقان میں ’آئی ایس‘ کی الگ شاخ کے قیام کا امکان تو نہیں ہے تاہم یورپ میں دہشت گردوں کی جانب سے بڑھتے حملوں کا خطرہ ضرور موجود ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ بلقان اپنے عدم استحکام کی وجہ سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے تر نوالہ ثابت ہو گا اور اس لیے ضروری ہے کہ اس خطّے کی سیاسی قیادت عالمگیر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مغربی جمہوریتوں کے ساتھ زیادہ پُر عزم طریقے سے مل کر کام کرے۔

Propagandavideo IS Balkan
اس ویڈیو میں ایک باریش نوجوان بوسنی زبان میں پکار رہا ہے: ’’اُن کی گاڑیوں اور مکانوں میں بارود رکھ دو۔ اُن کے کھانے میں زہر ملا دو، انہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے دو۔‘‘تصویر: Propagandavideo Islamic State via Al Hayat/YouTube

جہاد کے پیچھے اقتصادی بد حالی کارفرما

بوسنیا میں بھی ایسے حملے ہوئے ہیں، جن کے پیچھے مسلمان انتہا پسندانہ نظریات کا عمل دخل تھا۔ اس سال اپریل میں ’آئی ایس‘ کے ایک مبینہ پیروکار نے شہر زوورنِک میں ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور دو مزید افراد کو زخمی کر دیا۔ یہ بات البتہ ثابت نہیں ہے کہ آیا خود اُس نے اپنی واردات کو ’آئی ایس‘ کی قیادت سے جوڑا تھا۔

اگرچہ بلقان میں آئی ایس کے خطرے کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اس علاقے میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو بہت سے نئے حامی ملے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق صرف کوسووو ہی سے 250 نوجوان آئی ایس کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے گئے ہیں۔ کوسووو کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ ایک یورپی ریکارڈ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آج کل نئے جہادیوں کی بھرتی کے حوالے سے بوسنیا ہیرسیگووینا سرِفہرست ہے اور بھرتی ہونے والے زیادہ تر ایسے نوجوان ہوتے ہیں، جن کا تعلق معاشرے کے پِسے ہوئے طبقوں سے ہوتا ہے، جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور نہ ہی جنہیں کام کاج کرنے کا کوئی تجربہ ہوتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید