کیا اشرف غنی کے دورے کا مقصد پورا ہوگا؟
28 جون 2019تاہم ناقدین کے خیال میں اس دورے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام آباد افغان طالبان اور افغان حکومت کے براہ راست مذاکرات میں مدد کرے، جو ان کے خیال میں پورا نہیں ہوگا۔
افغان صدر جمعرات 27 جون کو دوروزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے، جہاں پاکستانی مشیر تجارت رزاق داؤد نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان سے ملاقاتیں کیں اور اس کے علاوہ اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سے بھی خطاب کیا۔
پاکستان کے مخلتف ممالک سے تعلقات کو اس تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ کسی سربراہ مملکت کا استقبال کس طرح کیا گیا ہے۔ حال ہی میں قطر کے امیر اور سعودی ولی عہد کا استقبال خود وزیرِ اعظم عمران خان نے کیا۔ ناقدین کے خیال میں استقبال کا یہ طریقہ بھی اسلام آباد کی ترجیحات کا عکاس ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کی خیال میں اشرف غنی بنیادی طور پر یہ خواہش لے کر آئے تھے کہ اسلام آباد ان کی طالبان سے براہ راست بات چیت کرانے میں مدد کرے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکڑ ظفر نواز جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان حکومت کی یہ خواہش پوری نہیں کر پائے گا: ''بظاہر ان کے دورے کا مقصد یہ ہی ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ کابل حکومت کی براہ راست بات چیت کرا دے۔ پاکستان کوشش کرے گا کہ ایسا ہو لیکن یہ کوشش ثمر آور نہیں ہوگی کیونکہ طالبان کابل انتظامیہ سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکی عہدیداران یہ توقع کر رہے ہیں کہ افغانستان میں امن کے لیے جلد ہی کوئی فارمولہ طے پا جائے گا۔ تاہم اس فارمولے کا ایک اہم جزو افغان حکومت کے طالبان سے براہ راست مذاکرات ہیں۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی ڈاکٹر جسپال کی اس رائے سے متفق ہیں کہ براہ راست مذاکرات ممکن نہیں ہیں: ''اشرف غنی کی یہ خواہش ہے اور اس دورے کا ایک اہم مقصد بھی کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات میں پاکستان ان کی مدد کرے۔ امریکا بھی پاکستان سے یہ کئی بار کہہ چکا ہے لیکن طالبان کہتے ہیں کہ ان کی جنگ کا مقصد امریکا کو پہلے نکالنا ہے۔ پھر اشرف غنی انتخابات میں جارہے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ وہ جیتیں گے یا نہیں۔ تو پاکستان ان کی ایسے موقع پر کیوں مدد کرے گا؟ میرے خیال میں موجودہ حالات میں تو پاکستان براہ راست مذاکرات نہیں کرا سکتا۔ اگر پاکستان نے بہت زور دیا تو ان کے افغان طالبان سے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔‘‘
تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان اپنی روایتی افغان پالیسی کو خیر باد کہہ رہا ہے اور وہ افغان پالیسی میں امریکا اور خطے کے دوسرے ممالک کی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں لا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا ہے اور وہ افغان حکومت سے براہ راست بات چیت بھی کرائے گا۔ معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر ضیا الدین کے خیال میں پاکستان نے افغانستان کے مسئلے پر مغرب اور امریکا کی ترجیحات کو تسلیم کر لیا ہے: ''ہماری پالیسی یہ تھی کہ کابل میں بھارت مخالف حکومت ہو اور طالبان اس حکومت میں سب سے اہم ہوں لیکن اب پاکستان نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ وہاں طالبان کی حکومت نہیں چاہتا بلکہ طالبان آنے والی حکومت میں ایک جونیئر پارٹنر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اسٹریٹیجک گہرائی والی پالیسی بھی ترک کر دی ہے۔ اب اشرف غنی کے دورے کے بعد ہم بھارت کو بھی ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے راستہ دیں گے اور افغانستان کو بھی بھارت سے تجارت کے لیے راستہ دیں گے۔ پاکستان امریکی خواہشات کو مان رہا ہے۔ اسی لیے چار سال میں پہلی بار امریکی صدر نے کسی پاکستانی سربراہ حکومت کو امریکا آنے کی دعوت دی ہے۔ اور اگر اس میں آرمی چیف بھی جاتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی اس تبدیل شدہ پالیسی کے پیچھے ہیں۔‘‘
ضیا الدیں کے بقول پاکستان کی طرف سے ملا بردار کو رہا کیا جانا اور ان کو مذاکرات کا حصہ بنانا اس بات کا غماز ہے کہ ہم نے امریکی مطالبات مان لیے ہیں: ''ہم نے کب سے برادر کو گرفتار کیا ہوا تھا لیکن ہم اسے امریکا کے حوالے نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی اسے بات چیت کرنے دے رہے تھے۔ اب اگر وہ بات چیت میں اہم کردار اداکر رہا ہے تو یہ ہماری تبدیل شدہ پالیسی کا عکاس ہے۔ امریکا اب خطے میں جڑت چاہتا ہے اور اب ہم اس جڑت کے لیے بھی کام کریں گے۔ میرے خیال میں اس دورے سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوں گے کیونکہ امریکا اب ہماری مانیٹرنگ کرے گا۔‘‘
پاکستان میں یہ افواہیں بھی گرم رہیں کہ افغان صدر نے اپنے لیکچر میں پی ٹی ایم اور فاٹا کے حوالے سے بھی بات کی ہے لیکن افغان صدر کے لیکچر میں موجود دو افراد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی بات کی ہے۔ جب ڈوئچے ویلے نے اس سلسلے میں افغان سفارت خانے سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ افغان سفیر اور ان کا عملہ صدر غنی کی تقریبات کی وجہ سے مصروف ہیں۔ افغان سفارت خانے کی طرف سے ڈی ڈبلیو کے تحریری سوالات کے بھی جوابات نہیں دیے گئے۔