1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا دھرنے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو ہٹایا جا سکتا ہے؟

15 مئی 2023

پاکستان میں چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کے عہدے سے صرف آئین میں درج طریقے سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ آئینی ماہرین کے مطابق ہجوم اکٹھا کر کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا توہین عدالت ہے۔

https://p.dw.com/p/4RM42
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے سامنے پی ڈی ایم کا دھرنا
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

پاکستان میں بر سر اقتدار درجن بھر سیاسی جماعتیں  مولانا فضل الرحمٰن  کی دعوت پر اسلام آباد میں ہونے والے ایک ایسے دھرنے میں شریک ہیں جس کا اہتمام  چیف جسٹس آف پاکستان  جسٹس عمر عطا بندیال  کی ''جانب داری اور  پاکستان تحریک انصاف  کی حمایت میں دیے گئے فیصلوں کے خلاف‘‘ کیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق یہ دھرنا غیر معینہ مدت کے لیے ہوگا اور اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک چیف جسٹس آف پاکستان اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو جاتے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہزاروں لوگ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری  اور پاکستان مسلم لیگ نون کی سینئر نائب صدر  مریم نواز  بھی اس دھرنے میں شریک ہو رہی ہیں۔

توہین عدالت کی کارروائی کا خدشہ

ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے بتایا کہ  حکومتی جماعتوں  کے دھرنے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ ان کے بقول یہ دھرنا ایک ایسے وقت میں دیا جا رہا ہے جب سپریم کورٹ اہم مقدمات سن رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کا فیصلہ دیا تھا لیکن چودہ مئی گزر گئی اور عدالت کے اس حکم پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ عدالت آج الیکشن کمیشن کی طرف سے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست پر بھی سماعت کر رہی ہے۔ ڈاکٹر عاصم سمجھتے ہیں کہ حکومتی شخصیات کو ڈر ہے کہ چیف جسٹس اس موقع پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز بھی کر سکتے ہیں اس لیے حکومت نے آج وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلا رکھا ہے جس میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف عدالتی فیصلوں کے بعد پیدا شدہ صورتحال پر غور کیا جائے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا اصدالرحمٰن
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

''پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے‘‘

پاکستان کی ایک معروف قانون دان اور لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس ناصرہ جاوید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر چند ہزار لوگوں کو اکٹھا کر کے چیف جسٹس کو گھر بھیجنے کی روایت ڈالی گئی تو پھر آئندہ کسی بھی چیف جسٹس کو اختلافی فیصلہ سنانے کی پاداش میں گھر بھیجنا مشکل نہیں ہوگا۔ ان کی رائے میں یہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور مرضی کے فیصلے لینے کی ایک کاوش ہے۔ ان کے بقول اگر دونوں بڑے سیاسی فریق اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لے آئے تو پھر تباہی کو ئی نہیں روک سکے گا۔ '' میرے خیال میں حالات خراب ہیں پاکستان ایک زمین بے آئین بنتا جا رہا ہے۔ اب پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘

عمران خان تفتیشی ایجنسی سے تعاون کریں، سپریم کورٹ

پاکستان میں بعض مبصرین کا خیا ل ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کو طویل عرصے کے لیے چھٹی پر چلے جانے یا عہدہ چھوڑ دینے کا مشورہ ملا تھا لیکن انہوں نے اس دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا جس پر حالات بگڑ گئے۔ مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص افراد کو ہی ان کے مقدمات سننے کے لیے دیے جاتے ہیں اور وہ یک طرفہ طور پر پی ٹی آئی کی حمایت میں فیصلے سنا رہے ہیں۔

عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے؟

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پاور پالیٹیکس اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اب لڑائی پی ڈی ایم اور عمران خان  کی ہی نہیں بلکہ  اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ  کی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے خیال میں عدلیہ کو عمران خان کے حامیوں کی صورت میں اسٹریٹ پاور کا سہارا مل گیا ہے اب اس کا اثر زائل کرنے کے لیے حکومتی جماعتیں بھی اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی متمنی ہیں۔ '' اگر عدالت نے اس بحران میں کے خاتمے کے لیے کوئی درمیانی راہ نہ نکالی تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا دوسری طرف سپریم کورٹ پر حملے کی صورت میں آئینی بالا دستی ختم ہو جائے گی اور غیر قانونی راج کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ‘‘

پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سول سوسائیٹی نیٹ ورک کے سربراہ عبداللہ ملک (ایڈوکیٹ) نے بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ہٹانے کے لیے ان کا  'مس کنڈکٹ‘  ثابت کرنا ہوگا اور اس ضمن میں ریفرنس حکومت صدر پاکستان کو بھیجے گی جو اسے چیف جسٹس کو بھجوائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی وہ مجاز ادارہ ہے جو اس بارے میں فیصلہ کرسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی لگانا بھی اب آسان نہیں رہا ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ  ایک فیصلے میں ایمرجنسی لگانے کے شرائط و حالات کے بارے میں تفصیلات طے کر چکی ہے۔

پی ڈی ایم کا دھرنے کا فیصلہ

دھرنے کے حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزماں کائرہ کا کہنا تھا کہ دھرنے کا فیصلہ مجبوری میں کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، ''جب سارے راستے بند ہو جائیں تو پھر احتجاج ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔‘‘

یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب  سرکاری و ملٹری املاک پر حملوں  کے الزام میں پنجاب کے تین ہزار پانچ سو کارکنوں سمیت ملک بھر میں پاکستان تحر یک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، فردوس شمیم، علی زیدی اور سیف اللہ نیازی سمیت پی ٹی آئی کے بہت سے مرکزی لیڈروں کی گرفتاری بھی عمل میں آ چکی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک بھر میں گرفتاریوں کے بعد اتوار کے روز پاکستان کے کسی بھی علاقے میں پی ٹی آئی کا کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے ایک تازہ ٹویٹ میں کہا ہے کہ اب لندن پلان  تو کھل کر سامنے آچکا ہے۔ ''میں قید میں تھا تو تشدد کی آڑ میں یہ [حکومت] خود ہی جج، جیوری اور جلاد بن بیٹھے ہیں! منصوبہ اب یہ ہے کہ بشریٰ بیگم کو زندان میں ڈال کر مجھے اذیت پہنچائیں اور بغاوت کے کسی قانون کی آڑ لے کر مجھےآئندہ دس برس کے لیے قیدکر دیں۔‘‘ عمران خان نے مذکورہ ٹویٹ میں پی ڈی ایم کے دھرنے کے بارے میں کہا، ''سپریم کورٹ کے باہر فضل الرحمٰن والے تماشے کا واحد مقصد بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو مرعوب کرنا ہے تاکہ وہ آئینِ پاکستان کےمطابق کوئی فیصلہ صادر کرنے سے باز رہیں۔‘‘

عمران خان کی لاہور واپسی، لیکن عوام ايک عجیب خوف میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں