کیا صحافی ’ملک دشمنوں کی حمایت ‘ کر رہے ہیں ؟
5 جون 2018گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے کہا کہ ان کے ادارے کے پاس سوشل میڈیا کی نگرانی کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ جانتے ہیں کون کیا کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں مقامی سوشل میڈیا کے اکاونٹس میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے افراد ان اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان، پاکستانی فوج اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ٹوئٹس کرتے ہیں ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایسے اکاؤنٹس کی نشاندہی بھی کی، جو اُن کی رائے میں ملک مخالف ٹوئٹس کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ کیسے کچھ پاکستانی صحافی ان اکاؤنٹس کی ٹوئٹس کو ری ٹویٹ کرتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دکھائی جانے والی اس سلائیڈ میں پاکستان کے کافی نامور صحافیوں کی تصاویر بھی دکھائی گئیں۔
اس معاملے پر ڈان نیوز سے وابستہ صحافی مبشر زیدی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،'' ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے ان کے خیالات سے منافی صحافیوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کی تصاویر کو یوں دکھانا درست نہیں ہے۔ آپ کو تنقید برداشت کرنا سیکھنا چاہیے۔‘‘
صحافی احمد نورانی نے ٹوئٹ میں لکھا،’’ پاکستان کے سب سے بہترین صحافیوں عمر چیمہ، مطیع اللہ جان، اعزاز سید، عمار مسعود، نصر اللہ خان، فخر درانی، رضوان راضی اور دیگر معزز شہریوں کی تصویریں دکھائی گئی ہیں، جیسے کہ وہ کوئی دہشت گرد ہوں۔‘‘
پاکستان کے نامور صحافی مطیع اللہ جان نے آصف باجوہ سے احتجاج کرتے ہوئے ٹویٹ میں لکھا،’’ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آرمی اور عدلیہ پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو کھل عام دھمکی دی ہے تاکہ انہیں انتخابات سے قبل خاموش کرا دیا جائے۔ یہ سب کچھ شدید سنسر شپ کو ثابت کرتا ہے۔‘‘