اس موضوع کو چھیڑنا شہد کی مکھیوں کے چھتے کو چھیڑنے سے کم نہیں ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں، جن کا خیال ہے کہ طلبہ تنظیمیں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی تباہی کا باعث بنی ہیں۔ ان لوگوں کی رائے میں تعلیم کا مقصد نوجوانوں کو ان کی پیشہ وارانہ زندگی کے لیے تیار کرنا ہے اور یہ مقصد اسی صورت حاصل کیا جا سکتا ہے، جب طلبہ زیادہ سے زیادہ وقت اساتذہ کے لیکچرز یا کتابیں پڑھنے میں صرف کریں۔ وہ طلبہ کی سیاست کو فضول اور خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس ضمن میں وہ کئی سال پہلے کا ذکر کرتے ہیں، جب یونیورسٹیوں کے حالات طلبہ تنظیموں کے آپسی جھگڑوں کی وجہ سے انتہائی بگڑ چکے تھے۔ آئے دن جھگڑا فساد ہوتا، امتحان ملتوی ہو جاتے اور پڑھنے کے خواہش مند طلبہ کا نقصان ہوتا۔ اس وقت تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ نے مجھے بتایا کہ جب تک وہ یونیورسٹی سے گھر نہ آ جاتی اس کی والدہ خیریت کی دعا کرتی رہتیں۔
کچھ لوگ طلبہ تنظیموں کو غیر ضروری اور وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق تعلیمی اداروں میں غیر تدریسی یا غیر نصابی سرگرمیاں طلبہ تنظیموں کے بغیر بھی جاری رکھی جا سکتی ہیں۔ یہ تو حقیت ہے کہ مختلف سماجی ادارے اس قسم کے فرائض انجام دے سکتے ہیں، جن سے ادبی، ثقافتی، تھیٹر، رقص و موسیقی اور بحث و مباحثہ جیسی غیر نصابی سرگرمیوں کا بہترین انتظام بغیر کسی جھگڑے کے ہو سکتا ہے۔
اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہیں، جو بالکل مختلف سوچ کے حامی ہیں۔ وہ طلبہ تنظیموں کے بغیر اعلیٰ تعلیم کو نامکمل سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تنظیم سازی، طلبہ کا حق ہے اور طلبہ کو کتابی علم کے علاوہ دنیا اور معاشرے کے مسائل کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنا چاہیے۔ فقط طلبہ تنظیمیں ہی ان کو اس قسم کا تجربہ اور علم فراہم کر سکتی ہیں۔ مثلاً پاکستان کے ابتدائی دور میں طلبہ کی کئی تنظیمیں بنیں جو کہ ہر نوعیت کی تھیں، جن میں سب سے نمایاں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی، جس نے طلبہ کے مسائل کے حل اور آگاہی میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈی ایس ایف (DSF)، پاکستان کمیونسٹ پارٹی سے جڑی ہوئی تھی لیکن اس نے تمام طلبہ تنظیموں سے دوستانہ تعلقات رکھے۔
افسوس کہ اس قسم کی روایت زیادہ وقت تک قائم نہ رہ سکی اور کچھ ہی عرصے بعد طلبہ تنظیموں کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں تشدّد کی وارداتیں ہونے لگیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیاست میں آمرانہ رجحانات داخل ہو گئے اور سیاسی جماعتوں نے اپنی طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں میں دخل دینا شروع کر دیا۔طلبہ بھی آپس میں مل جل کر کام کرنا بھول گئے اور مختلف عوامل کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہو گئے۔ ان کے ارکان کھلے عام ہتھیار اور بندوق لیے گھومتے اور ذرا سی بات پر گولیاں چل جاتیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی اور یونیورسٹیاں، قومی سیاست کا اکھاڑہ بن گئیں اور وہاں سیاسی جماعتیں اپنا زور بازو آزمانے لگیں۔ جب 1983ء میں ترقی پسند تنظیموں کو یونیورسٹی انتخابات میں واضح جیت ہوئی تو ضیاءالحق کو بے حد تشویش ہوئی اور اس موقع پر تمام تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی، جو آج تک قائم ہے۔
ایک عجیب سی خاموشی ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں چھا گئی اور ساتھ ہی ساتھ وہ سیاسی تربیت بھی ختم ہو گئی جو طلبہ پا رہے تھے، اس سے پاکستان کی سیاست کو شدید دھچکا لگا۔ میں نے جن طلبہ تنظیموں کے سابق سربراہان و ارکان سے بات کی، سب نے یہی کہا کہ 1983ء کے بعد سے سیاستدانوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ختم ہو گیا اور پڑھے لکھے نمائندوں میں واضح کمی ہوئی کیونکہ ماضی میں سیاسی رہنما طلبہ تنظیموں سے ہی پیدا ہوتے تھے۔
آج کل بہت سے مبصرین کا تقاضہ ہے کہ طلبہ تنظیموں کو بحال کیا جائے کیونکہ اس کے برے اثرات تعلیم اور نوجوانوں کی زندگیوں پر عیاں ہو رہے ہیں۔ بہت سے نوجوان ایسے ہیں، جن کی قوم کے حالات سے لاعلمی ہمیں حیران کر دیتی ہے، نہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اتنے طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے کہ ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے نوجوان بھی ہیں جو اپنےجذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں اور یہ ناانصافی ان کی زندگی میں تباہی کا باعث بن گئی ہے۔ وہ پریشان ہیں بلکہ بہت سے ایسےنوجوان بھی ہیں جو پاکستان کے لیےکسی قسم کے جذبات نہیں رکھتے۔
اس بے اطمینانی کی وجہ سےکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طلبہ تنظیموں کو فوری بحال کیا جائے البتہ اس شرط پر کہ سیاسی جماعتوں کو تعلیمی اداروں میں داخل ہونے کی بالکل اجازت نہ ہو اور طلبہ تنظیمیں کسی سیاسی جماعت سے رشتہ قائم نہیں رکھ سکتیں۔ سندھ حکومت نے طلبہ تنظیموں کو بحال کرنے کا قانون تو بنا لیا ہے لیکن اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ہے۔ ہو گا بھی یا نہیں؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔