1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پی ٹی آئی ریاستی اداروں کی لاڈلی ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
13 دسمبر 2018

پاکستان سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خانم کو جرمانے کی رقم ادا کرنے کے حکم کو ملک میں حزب اختلاف تنقید کا نشانہ بنارہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی ریاستی اداروں کی لاڈلی بن گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3A3TZ
تصویر: DW/S. Khan Tareen

علیمہ خانم پر الزام تھا کہ انہوں نے دبئی میں بے نامی کی جائیداد بنائی ہے۔ ان کا نام ان چوالیس افراد کی فہرست میں تھا، جن پر الزام ہے کہ وہ دبئی میں بے نامی کی جائیداد کی مالک ہیں۔ آج جمعرات تیرہ دسمبر کو پاکستانی سپریم کورٹ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بتایا کہ علیمہ خانم کو ٹیکس اور جرمانے کی مد میں 29.4 ملین روپے ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ رقم کی عدم ادائیگی کی صورت میں علیمہ خانم کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔

علیمہ خانم نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے یہ جائیداد دو ہزار آٹھ میں تین لاکھ ستر ہزار ڈالرز کے عوض خریدی تھی اور اسے دو زار سترہ میں بیچ دیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس میں سے پچاس فیصد رقم انہوں نے قرض لے کر ادا کی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ عدالتیں اور کئی تحقیقاتی اداروں کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ایک دوسرا رویہ ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ یہ رویہ مختلف ہے۔

سابق وزیر برائے بندرگاہ و جہاز رانی سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ا س فیصلے سے یہ تاثر جائے گا کہ جو بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا۔ اور جو حزب اختلاف کے ساتھ ہو گا، اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علیمہ خانم سے یہ کیوں نہیں پوچھا گیا کہ ان کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی ، وہ تو کوئی کام بھی نہیں کرتیں۔ اتنا پیسہ تو منشیات کے پیسے سے ہی آتا ہے۔ ایک طرف علیمہ خانم سے سوال نہیں کیے جا رہے تو دوسری طرف عمران خان کو بنی گالہ کی ریگولرائزیشن کے لیے کہا جا رہا ہے۔ زلفی بخاری کو رعایت دی جا رہی ہے اور دوسری طرف نواز شریف، حمزہ، خواجہ سعد اور خواجہ سلمان سے کئی سوالات کیے جا رہے ہیں۔ تو اس سے یہ تاثر جائے گا کہ عمران خان لاڈلے ہیں اور پی ٹی آئی لاڈلی ہے۔‘‘

اپوزیشن نے خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیے جانے پر احتجا ج کیا تھا ۔ ایک اپوزیشن رہنما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ملک یک جماعتی نظام کی طرف جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے خیال میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ریاستی ادارے اچھا سلوک کر رہے ہیں جب کہ حزب اختلاف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کے ایک رہنما اور سابق وزیر برائے ماحولیات مشاہد اللہ خان نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لوگ فیصلے دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔ علیمہ خان تو کوئی کام نہیں کرتیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اربوں روپے چندے کی مد میں حاصل کیے۔ عمران خان کی ایک اور ہمشیرہ پر بھی اربوں روپے جمع کرنے کا الزام ہے۔ علیمہ شوکت خانم اور نمل کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں اور ان کے کوئی ذرائع آمدنی نہیں ہیں۔ ان سے کوئی سوال نہیں کیے جا رہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے۔ لیکن نواز شریف سے یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ جوتے کہاں سے آئے اور جرابیں کہاں سے آئیں۔ ان سے تو تین نسلوں کا حساب لیا جا رہا ہے۔ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایف آئی اے، نیب اور عدالتوں کا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا نہیں ہے۔‘‘
تاہم پی ٹی آئی اس تا ثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ عدالتیں یا ریاستی ادارے حزب اختلاف اور پی ٹی آئی کے ساتھ مختلف رویے رکھے ہوئے ہیں۔

پارٹی کے رہنما سید ظفر علی شاہ نے اس بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سپریم کورٹ نہ کسی کی دوست ہے اور نہ دشمن۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ عدالتیں ہماری (پی ٹی آئی کی) حمایت کر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ علیمہ خانم نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہو۔ جہاں تک نیب اور ن لیگ کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا تعلق ہے، تو ان کے خلاف مقدمات ہم نے نہیں بنائے۔ ان کے خلاف کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات ہیں، جو خود ان کے دور کے ہیں۔ عدالتوں نے ہی انہیں پہلے گرفتار نہیں ہونے دیا اور اب اگر وہ گرفتار ہوئے ہیں، تو بھی عدالتوں ہی کے حکم پر ہوئے ہیں۔ ہم عدالتوں پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں