کیا کشمیر میں حالات واقعی بہتر ہو گئے ہیں؟
4 جون 2021بھارتی فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نارونے کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا عمل اب تک کامیاب رہا ہے تاہم اسے برقرار رکھنے کی پوری ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر میں اب حالات زندگی معمول پر آ گئے ہیں۔
وہ بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے دو روزہ دورے پر تھے جہاں انہوں نے فوجی کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں اور سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا۔ سری نگر میں جمعرات کے روز صحافیوں سے بات جیت میں انہوں نے دعوی کیا کہ کشمیر میں حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے اور بہت بہتری آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا،’’ایک طویل عرصے بعد امن و سکون کا بول بالا ہے۔ مجھے سبھی کمانڈروں نے لائن آف کنٹرول سمیت دور دراز کے علاقوں کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی ہے۔ ہم نارمل حالات کے تجزیے کے لیے جن معیارات کا استعمال کرتے ہیں ان سب میں بہتری آئی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’دہشت گردی کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں۔ ماضی قریب میں شاید ہی پتھراؤ کا کوئی واقعہ ہوا ہو اور دھماکے بھی نہیں ہوئے۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ حالات معمول پر آتے جا رہے ہیں۔ عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔‘‘
تاہم ان سے جب یہ سوال کیا گيا کہ اگر حالات اتنے ہی بہتر ہیں تو کیا مستقبل قریب میں کشمیر میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں کمی کا کوئی امکان ہے؟۔ اس پر انہوں نے کہا کہ فوج کی تعیناتی کا وقتا فوقتا جائزہ لیا جاتا ہے،’’اگر صورت حال نے اجازت دی تو ہم کچھ فوجیوں کو دوسری جگہ تعینات کرنے غور کریں گے۔ تاکہ فوجیوں کو بھی کچھ آرام مل سکے۔ لیکن ایک جگہ سے سب کو ایک ساتھ نہیں ہٹا یا جا سکتا۔‘‘
کیا کشمیر میں حالات بہتر ہو گئے ہیں؟
کشمیر میں بھارتی نواز سیاست دانوں کے متحدہ محاذ 'گپکار' میں شامل ایک سرکردہ رہنما اور عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر شاہ نے بھارتی فوجی سربراہ کے بیان کو ’صریحا جھوٹ ‘ قرار دیا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں تو، دو روز قبل ہی دن دہاڑے ایک کونسلر کو قتل کیوں کر دیا گيا،’’ وہ کیا بات کر رہے ہیں، کشمیر کے تو حالات قطعی نارمل نہیں ہیں۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنوبی کشمیر میں دو روز قبل ہی ایک سیاسی رہنما کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گيا تھا۔
ان سے جب یہ سوال کیا گيا کہ بھارتی فوجی سربراہ کا یہ بیان تو کس حد تک صحیح ہے کہ اب پتھراؤ کم ہو گیا ہے، مظاہرے بھی بہت کم ہوتے ہیں؟ اس پر مظفر شاہ کا کہنا تھا،’’یہ اس لیے ہے کیونکہ کشمیری عوام بھارتی حکومت سے اس قدر نالاں اور مایوس ہو چکی ہے کہ اس نے ان سے منہ پھیر لیا ہے اور اب انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ خاموشی سے سب دیکھ رہے ہیں۔ اور مقامی سیاست دانوں نے بھی ان سے خاموش رہنے کی اپیل کر رکھی ہے۔‘‘
مظفر شاہ کے مطابق یہ خاموشی بھارتی فوجی سربراہ کی کوششوں کے سبب نہیں ہے بلکہ یہ کشمیر کی نوجوان لیڈر شپ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ ہونے پائے، جس سے بھارتی فوج کشمیریوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دے اور ان پر تشدد کیا جانے لگے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 اگست میں کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دوخطوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے کشمیر میں کرفیو جیسی سخت بندیشیں عائد کر دی گئی تھیں اور سینکڑوں کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس میں سے بیشتر اب بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ بہت سی سخت بندشیں اب بھی عائد ہیں۔
اعتماد بحال کرنے کی ذمہ داری بھی پاکستان پر
بھارت اور پاکستان نے رواں برس 25 فروری کو جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے گزشتہ روز 100 دن مکمل ہو گئے۔ اس دوران فریقین اس پر پوری طرح سے عمل بھی کیا۔ اس موقع پر بھارتی فوجی سربراہ نے کہا کہ جب تک پاکستان اس پر عمل کرتا ہے بھارت بھی عمل کرتا رہے گا۔
ان کا کہنا تھا،’’جنگ بندی پر عمل کو یقینی بنانے کی پوری ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک وہ ایسا کرتے ہیں ہم بھی اس پر عمل کرنے کو تیار ہیں۔ جنگ بندی کے دور میں بھی دوسری سرگرمیاں میں جاری ہیں۔ سرحد پار دہشت گردی کے انفراسٹرکچر اب بھی برقرار ہیں، تو جہاں تک ہمارا تعلق ہے، کسی بھی سطح پر ہماری تیاری یا چوکسی کم نہیں ہوئی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی عشروں سے بے اعتمادی پائی جاتی ہے اور اس صورت حال کو ایک دو دن میں درست نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر وہ جنگ بندی پر عمل کرتے رہیں اور بھارت میں مسائل کھڑے کرنے کے لیے دہشت گردوں کی در اندازی بند کر دیں، تو ان اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔‘‘
جوہری طاقت رکھنے والے دونوں ملکوں کے درمیان سن 2019 سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، جب کشمیر میں بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے حملے میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت نے ان حملوں کے لیے پاکستان سے سرگرم دہشت گردوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعہ پاکستانی علاقوں کو دہشت گردوں کے مرکز کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا تھا۔
سن 2019 میں ہی پانچ اگست کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی، جس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس اقدام کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح گھٹا دی اور تجارتی تعلقات معطل کر دیے۔
تاہم دونوں ملکوں کی حکومتوں نے 25 فروری کو جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا اور تعلقات کو معمول پر لانے کی سفارتی کوششیں بھی شروع ہوئی تھیں۔ لیکن اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو پائی ہے۔
پاکستان کشمیر کے مسئلے پر علیحدگی پسندوں کے موقف کا حامی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اسی ہفتے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ موجودہ صورت حال میں بھارت سے تعلقات بہتر کرنا کشمیریوں کے ساتھ غداری ہو گی۔