کیتھولک کلیسا کا اسرائیل سے مطالبہ :فلسطینیوں کا خیر مقدم
24 اکتوبر 2010فلسطین کے چیف مذاکرات کار صائب عُریقات نے کیتھولک پادریوں کی جانب سے اسرائیل سے کئے جانے والے اُس مطالبہ کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں اسرائیل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کرے۔ اتوار کو ایک بیان دیتے ہوئے صائب عُریقات نے کہا ’ مسیحی باشندے فلسطینی عوام کا اٹوٹ انگ رہے ہیں‘۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے مسیحی برادری کو مقدس سر زمین سے نکالا اور ترک وطن کر دیا ہے، جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کے مستقبل کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ فلسطینی مذاکرات کار نے مزید کہا ’ ہم مجلس کلیسا کی عالمی برادری سے کی جانے والی اُس اپیل کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں، جس کا مقصد اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین، آزادی کی عالمی اقدار ، عالمی وقار اور انصاف پر قائم رہنے کی ترغیب دلانا ہے‘۔ صائب عُریقات نے کہا کہ عالمی برادری کو فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضے کو ختم کروانے کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔
صائب عُریقات کے یہ بیانات دراصل مشرقِ وسطیٰ میں کیتھولک کلیسا کے رہنماؤں کی طرف سے مُشترکہ طور پر اسرائیل سے کئے جانے والے اس مطالبے کے بعد سامنے آیا، جس میں تل ابیب حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں تسلیم کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں کا ’قبضہ‘ چھوڑ دے۔ اس بارے میں ویٹی کن میں مشرقِ وسطیٰ کے بشپس کا اجلاس منعقد کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے ایما پر ہوا۔ پوپ نے اس اجلاس میں شرکت کے لئے مشرقِ وسطیٰ کے کلیسائی رہنماؤں اور متعدد بشپس کو مدعو کیا تھا۔ یہ اجلاس گزشتہ کئی دِنوں تک روم میں جاری رہا۔ ہفتہ کو اجلاس کا اختتامی اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف 'ناانصافیوں‘ کو حق بجانب قرار دینے کے لئےبائبل کو استعمال نہ کرے۔
کلیسائی رہنماؤں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ 1967ء کے تنازعہ مشرق وسطیٰ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد کے لئے تل ابیب حکومت پر دباؤ ڈالے۔ انہوں نے کہا، 'اسی صورت میں فلسطینی عوام کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست حاصل ہو سکے گی، جہاں وہ عزت اور سلامتی سے رہ سکیں اوراس طرح اسرائیل بھی پُر امن ہو جائے گا۔
روم منعقدہ اس اجلاس میں متعدد بشپس نے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کو مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کی جڑ قرار دیا۔ ان کے مشترکہ اعلامیے میں بھی اسی بات پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی اور یہودی مخالف رویوں کی مذمت کی۔ تاہم فلسطین کے ساتھ تنازعے کو ہوا دینے کی زیادہ ذمہ داری بھی اسرائیل پر رکھی۔
کلیسائی رہنماؤں نے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی شہریوں کے مسائل اور انہیں درپیش عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ یروشلم کی حیثیت پر بھی غور کیا، جو مسیحیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے مقدس شہر ہے۔
انہوں نے کہا، 'یکطرفہ اقدامات ہمارے لئے تشویش کا باعث ہیں، جن سے یروشلم کی کُلی حیثیت پر منفی اثر پڑ رہا ہے جبکہ وہاں تینوں مذاہب کے شہریوں کی آبادی کا توازن بھی خطرے میں ہے۔‘
رومن کیتھولک کلیسا کے مشرقِ وسطٰی سے تعلق رکھنے والے بشپس کا یہ اجلاس دو ہفتے جاری رہا، جس کے بعد یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ یہ اجلاس پاپائے روم نے طلب کیا تھا، جس کا مقصد اس خطے میں مسیحیوں کی حالتِ زار اور اسی خطے سے مسیحیوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت پر غور کرنا تھا، جہاں سے دراصل مسیحیت کا آغاز ہوا۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق اب یہ مسلمان اکثریت پر مشتمل خطہ ہے، جہاں کیتھولک مسیحی طویل عرصے سے اقلیت میں ہیں جبکہ وہاں، جنگ، تنازعات، تعصب اور معاشی مسائل کے باعث ان کی آبادی مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عاطف توقیر