کیمرون کا بیان: برطانوی سفیر کی طلبی
2 اگست 2010پیر کے روز اسلام آباد میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خود ان سے ملاقات کی۔ عام طور پر جب کسی غیرملکی سفیرکو طلب کیا جاتا ہے، توسیکریٹری خارجہ یا دفترخارجہ کے دیگر اعلیٰ حکام میں سے کوئی اس سے بات چیت کرتا ہے۔
دفتر خارجہ کے ایک اعلامیے کے مطابق وزیر خارجہ قریشی نے برطانوی ہائی کمشنر کو پاکستانی حکومت اور عوام کے ان جذبات سےآگاہ کیا، جو ڈیوڈ کیمرون کے بھارت میں دئے گئے بیان کے حوالے سے ملک میں پائے جاتے ہیں۔
اعلامیے کے مطابق قریشی نے کہا کہ دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک ملک پر ڈالنے کے بجائے تمام ممالک کو اس کے حل کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔
اس موقع پر برطانوی ہائی کمشنر نے ڈیوڈ کیمرون کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئےکہا کہ برطانیہ آئندہ دنوں میں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید پائیدار بنانا چاہتا ہے۔
اسی دوران پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کےعلاوہ عوامی حلقے بھی برطانوی وزیراعظم کے بیان کے تناظر میں ملکی صدر زرداری کے مجوزہ دورہء برطانیہ کی منسوخی چاہتے ہیں۔ صدر زرداری اس وقت فرانس میں ہیں، جہاں سے وہ برطانیہ جائیں گے اور ڈیوڈ کیمرون سے بھی ملیں گے۔
اس حوالے سے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا کہنا ہے: ’’کسی قیمت پر بھی یہ کوئی ایسا موقع نہیں ہے کہ صدر پاکستان لندن جا کر برطانوی وزیراعظم سے ملیں۔‘‘ نواز شریف کے مطابق: ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ دورہ نامناسب اور پاکستانی عوام کے جذبات کی توہین ہے۔‘‘
دوسری طرف وفاقی وزیرقانون بابر اعوان نے اس سلسلے میں اپوزیشن کی تنقید کو بے جا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا درست تشخص اجاگر کرنے کےلئے صدر زرداری کے بین الاقوامی دورےناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’صدر زرداری کے برطانیہ جانے کا مقصد پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دینا ہے۔ ہماری لیڈرشپ کا فرض ہےکہ عالمی رہنماؤں سے بات چیت کے ذریعے ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔‘‘
قبل ازیں برطانوی ہائی کمشنر اور وزیر خارجہ نے بھی اپنی ملاقات میں صدر زرداری اور برطانوی وزیراعظم کی آئندہ ملاقات کو دونوں ملکوں کے مابین غلط فہمیوں کے ازالے اور تعلقات کی بہتری کے لئے اہم قرار دیا۔
رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت : عصمت جبیں