کینیا پر ٹڈی دل پل پڑے، کسان پریشان، عوام خوف زدہ
25 جنوری 2020گزشتہ ستر برسوں میں کینیا میں ٹڈی دل کا یہ سب سے بڑا دھاوا ہے۔ ان ٹڈیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک اہم اجلاس اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے نے نیروبی میں طلب کر رکھا تھا۔ کینیا کے دارالحکومت میں منعقدہ اس اجلاس میں کئی ڈونرز ادارے بھی شریک تھے۔ اس میں طے پایا کہ ستر ملین ڈالر کے ساتھ کینیا میں موجود لاکھوں ٹڈیوں کا صفایا کیا جائے۔
اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے کے مطابق ٹڈیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فضا سے ان کو ہلاک کرنے یا صحرا کی جانب واپس روانہ کرنے کا اسپرے کیا جائے گا۔ یہ ابھی طے نہیں ہوا کہ اسپرے کب سے شروع کیا جائے گا۔ گلابی رنگت کی صحرائی ٹڈیوں نے ہزاروں درختوں پر ڈیرا ڈال رکھے ہیں اور ان درختوں کی رنگت بھی گلابی ہو کر رہ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایک محقق ژینس لائرکے کے مطابق ٹڈیوں کا ایک چھوٹا گروپ بھی پینتیس ہزار انسانوں کی خوراک ایک دن میں چٹ کر جاتا ہے۔ کینیا کے علاقوں کے کسانوں میں شدید بےچینی پائی جاتی ہے اور وہ حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب اس صورت حال سے انہیں نجات دلاتی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی توجہ چاہتے ہیں اور حکومت دوسرے ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی جانب امداد کے لیے دیکھ رہی ہے۔
اس وقت کینیا کے ایک لاکھ بہتر ہزار ایکڑ سے زائد علاقے پر ٹڈی دل کی وجہ سے پریشان کن صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ کینیا کی وزارت زراعت کا کہنا ہے کہ اب تک ٹڈیوں کی یلغار کو روکنے کے لیے بیس اسپرے کیے جا چکے ہیں لیکن اُن کی آمد مسلسل جاری ہے اور انہیں قابو میں کرنا نیروبی حکومت کے بس میں نہیں رہا۔
ماہرین کے مطابق ایک سو پچاس ملین تک ٹڈیاں ایک کلومیٹر کے درمیان ہوتی ہیں۔ شمال مشرقی کینیا میں ٹڈیوں کا لشکر ساٹھ کلومیٹر لمبا اور چالیس کلومیٹر چوڑا ہے۔ اتنے بڑی ٹڈیوں کے لشکر کو قابو میں لانے کے لیے نیروبی حکومت مزید امداد کی طلب گار ہے۔ اس وقت بھی کینیا کے چار ہوائی جہاز ٹڈیوں پر اسپرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حکومتی اہلکار فرانسس کیٹو کا کہنا ہے کہ ٹڈیوں کے اتنے بڑے لشکر کو واپس لوٹانے کے لیے مسلسل اسپرے کی ضرورت ہوتی ہے اور وقفہ پیدا ہونے کی صورت میں پہلے سے کیے گئے اسپرے کا اثر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ فرانسس کیٹو کے مطابق لوگ ان ٹڈیوں سے بہت زیاہ سہمے ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہڑپ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہ مال مویشیوں کا چارہ بھی فوری طوری کھانے سے گریز نہیں کرتیں۔ کیٹو کے مطابق جلد کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ انڈے دے کر اگلی نسل کو پیدا کر لیں گی اور صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔ کینیا کے ہمسایہ ممالک بھی ان ٹڈیوں سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق صحرائی ٹڈیوں کا لشکر اس وقت کینیا سے ہوتا ہوا یوگنڈا کی جانب بڑھ رہا ہے۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ جنوبی سوڈان میں بھی داخل ہو سکتی ہیں، جہاں پہلے ہی خانہ جنگی کی وجہ سے بھوک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ٹڈیوں کی نگاہیں قدرے آسودہ حال ملک ایتھوپیا کی جانب بھی ہیں اور اگلے دنوں میں یہ ایتھوپیا میں داخل ہو سکتی ہیں۔
ع ح ⁄ ش ح (اے پی)