گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کو ایک سال بیت گیا
4 جنوری 2012بدھ کے روز اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں جہاں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا وہاں سول سوسائٹی کے چند ارکان نے پھول رکھ کر ان کی پہلی برسی منائی۔
اس موقع پر کوئی بھی قابل ذکر حکومتی رہنما سلمان تاثیر کی جائے قتل پر نہیں آیا۔ سلمان تاثیر جن کا اپنا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے تھا کے قتل کے بعد سے پیپلز پارٹی کے رہنما انتہائی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور شیری رحمن کے علاوہ کسی نے بھی کھل کر ان کے قتل کی مذمت نہیں کی۔ البتہ شیری رحمن کو بھی قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد توہین رسالت کے قانون میں مجوزہ ترمیم کے لیے جمع کرایا گیا اپنا بل قومی اسمبلی سے واپس لینا پڑا تھا۔
راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے سلمان تاثیر کے قاتل پنجاب پولیس کے اہلکار ممتاز قادری کو یکم اکتوبر کو سزائے موت سنا دی تھی تاہم ملزم نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جو ابھی تک زیر التوا ہے۔ لیکن اس مقدمے میں حکومتی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلمان تاثیر کے مقدمے کی کامیاب پیروی کرنے والے سرکاری وکیل سیف الملوک کو ابھی تک نہ معاوضے کی پوری ادائیگی کی گئی اور نہ ہی انہیں حفاظت مہیا کی گئی ہے۔ اس بارے میں سیف الملوک نے بتایا، ’’یہی انہوں نے طے کیا تھا کہ ساری زندگی مجھے اور میری فیملی کو تحفظ دیا جائے گا۔ میری فیملی قاتلوں سے خوفزدہ ہے۔ حکومت کے لوگ اپنی اپنی جگہ خوفزدہ۔ دیکھیں یہ جو مذہبی لوگ ہیں ان سے سب لوگ ہی خوفزدہ ہیں‘‘۔
دوسری جانب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد پاکستانی معاشرے میں ایک واضح تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی کہ توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی بات کرنے والی آوازیں دب گئی ہیں۔ بعض تجزیہ نگار سلمان تاثیر کے قتل کو انتہا پسندوں کی مضبوطی کی بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے رکن اور سینئر وکیل طارق محمود کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کے حوالے سے حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، اس وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں اگر کسی کی بھی جان جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ جب گورنر کی سیٹ پر بیٹھا ہوا ایک فرد بھی اس قسم کی کارروائی کا شکار ہو جائے تو پھر آپ یہ سوچیں کہ عام آدمی کا کیا حشر ہو گا۔ تو گزارش یہ ہے کہ اس ملک میں جو حکومت ہے، چاہے وہ جس کی ہے، یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ انہیں فکر کرنی چاہیے، بات یہ نہیں کہ سلمان تاثیر کا قتل ہو گیا، بات یہ ہے کہ ایسے واقعات سے لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں‘‘۔
دریں اثناء گزشتہ برس اگست میں لاہور سے اغوا کیے گئے سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کو ابھی تک بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کو ایک شدت پسند گروہ نے اغوا کر کے قبائلی علاقے وزیرستان میں رکھا ہوا ہے۔ سلمان تاثیر کے دیگر اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں بھی جان کا خطرہ ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: امجد علی