ہنگری: تمام مہاجرین کو حراست میں لینے کا قانون منظور
7 مارچ 2017ہنگری کے سخت گیر موقف رکھنے والے وزیر اعظم وکٹر اوربان کے مطابق قانون سازوں کی اکثریتِ رائے سے منظور ہونے والا یہ قانون یورپ میں پناہ گزینوں کی جانب سے کیے گئے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کا ردّ عمل ہے۔ مذکورہ قانون سازی کے ذریعے ہنگری میں پہلے سے موجود اور آئندہ داخل ہونے والے تمام مہاجرین کو زیرِ حراست یا پھر انہیں اُن کے مہاجر کیمپوں تک محدود رکھا جائے گا۔ اِس نئے قانون کے تحت تارکینِ وطن کی پناہ کی درخواستوں پر عمل در آمد مکمل ہونے تک اِن کی ہنگری میں نقل و حرکت اور ملک چھوڑنے پر پابندی ہو گی۔
ہنگری کی پارلیمان کی ویب سائٹ پر آج شائع ہونے والے اس بِل کی تفصیلات کے مطابق مستقبل میں پناہ گزینوں کو اُن کے کیس پر فیصلہ آنے تک ملکی سرحدوں پر بنائے گئے ٹرانزٹ زونز میں رہ کر ہی انتظار کرنا ہو گا۔ اس قانون سازی کے ذریعے ہنگری میں تارکینِ وطن کی نقل و حرکت محدود کرنے یا انہیں حراست میں رکھنے کے ایک پرانے طریقے کو بحال کر دیا گیا ہے جسے سن 2013 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین، یورپی یونین اور یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کی جانب سے دباؤ کے تحت معطل کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ’ ایمنیسٹی انٹر نیشنل‘ نے گزشتہ ماہ ہی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہنگری کے ان نئے قوانین میں یورپی یونین کے اُن رہنما اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، جن کے مطابق کسی شخص کو محض اس لیے حراست میں نہیں لیا جا سکتا کہ اُس نے کسی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے۔
ہنگری میں دائیں بازو کی جماعت برسر اقتدار ہے۔ مہاجر مخالف رویہ رکھنے والی اس حکومت نے سربیا سے متصل ملکی سرحدیں سن 2015 ہی میں بند کر دی تھیں۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے اس برس مزید تارکین وطن ملکی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں اور اسی خدشے کے پیش نظر ایک جدید سرحدی باڑ نصب کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔