ہنگری میں مہاجرین مخالف قانون، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تنقید
15 فروری 2018ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس بل کے تحت حکومت مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کسی بھی گروپ یا تنظیم کو، جسے وہ پسند نہ کرے، ہدف بنا سکے گی۔ بدھ کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاکہ یہ قانونی بل حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مہاجرین کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کو کام کرنے سے روک دے۔ انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم نے اس بل کو ’’انتہائی افسوس ناک اور سول سوسائٹی پر ایک غیرمنصفانہ حملے‘ سے تعبیر کیا ہے۔
وسطی یورپ اِس براعظم کی نئی ابھرتی قوت ہے، وکٹور اوربان
یورپی رہنماؤں کے درمیان مہاجرین کے موضوع پر اختلافات برقرار
تین یورپی ممالک کے خلاف یورپی کمیشن کی کارروائی
یہ مجوزہ قانونی بل منظوری کے لیے منگل کو پارلیمان میں جمع کرایا گیا تھا۔ اس بل میں تارکین وطن کے لیے معاونت، انتظام یا سرمائے سے مدد کرنے والی تنظیموں کو ملک میں کام کرنے کے لیے نئی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ اس بل میں ایسی تنظیموں کو کام کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہو گی اور اپنی سرگرمیوں سے متعلق آگاہی بھی دینا ہو گی۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے تارکین وطن کے لیے حاصل کردہ سرمائے پر انہیں 25 فیصد بہ طور محصولات سرکاری خزانے میں جمع کرانا ہو گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ کے لیے ڈائریکٹر گاؤری فان گُلَک کے مطابق، ’’یہ تجاویز ملکی سلامتی یا سرحدوں کے تحفظ سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ اس کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ افراد جو لوگوں کی مدد کر رہے ہیں یا جو آواز اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں، انہیں دبایا جائے۔‘‘
یہ مجوزہ قانون ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کی مہاجرین مخالف مہم کا حصہ ہے۔ حکومت نے اس بل کا نام ’اسٹاف سوروس‘ رکھا ہے۔ واضح رہے کہ ہنگریئن نژاد امریکی جارج سوروس نے چند برس قبل کہا تھا کہ وہ یورپ میں تارکین وطن کو لانا چاہتے ہیں، تاہم تارکین وطن سے متعلق اپنے اس موقف میں وہ متعدد مرتبہ تبدیلی کر چکے ہیں۔
ہنگری میں اس مجوزہ قانون پرکونسل آف یورپ میں شہری حقوق کی نمائندہ عالمی تنظیموں نے سخت تنقید کی ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق اس بل کے اثرات فقط مہاجرین کے معاملے پر نہیں پڑیں گے، بلکہ دیگر امور بھی اس سے متاثر ہوں گے۔