ہنگری پناہ گزین واپس لے ورنہ عدالت جائیں گے، آسٹریا
7 ستمبر 2016آسٹریا کا موقف ہے کہ ہنگری گزشتہ سال سے یورپی یونین کے اس قانون کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کرتا آ رہا ہے جس کے تحت تارکین وطن یورپی یونین میں شامل اسی ملک میں قیام کرنے کے پابند ہیں جہاں انہوں نے یورپ میں داخلے کے بعد پہلی مرتبہ قدم رکھے تھے۔ آسٹریا اور ہنگری کی حکومتوں کا کہنا ہے کہ ان کی مشترکہ سرحد پر تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر آمد کے ایک سال بعد بھی صورت حال کافی حد تک قابو میں ہے۔ ان مہاجروں میں سے متعدد اب جرمنی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لاکھوں پناہ گزینوں نے جنوبی یورپی ممالک کی طرف سے شمال کی طرف یعنی جرمنی، سویڈن اور آسٹریا کا سفر اختیار کیا ہے۔
اس صورت حال نے نام نہاد ڈبلن قانون کا نفاذ ناممکن بنا دیا ہے جس کے تحت یورپی یونین کے ممالک میں آنے والے تارکین وطن کو ان کے ’یورپ میں ابتدائی آمد کے ملک‘ واپس بھیجنا ہوتا ہے۔ دوسری جانب ہنگری سمیت وسطی اور مشرقی یورپ کے ممالک نے تارکین وطن کو زبردستی واپس لینے اور مہاجرین کے بحران کے تناظر میں کوٹہ متعارف کرانےکی یورپی کوششوں کی مخالفت کی ہے۔
آسٹریا کے وزیر داخلہ وولف گانگ سبوٹکا نے او آر ایف ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس حوالے سے سب سے اہم یورپی ڈبلن حکومت ہے۔اگر ڈبلن اور یورپی ریاستیں یا ریاستوں پر مشتمل گروپ مستقل قانون شکنی کرتے ہیں تو انہیں اس کے قانونی نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘ آسٹریا کے وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں آسٹریا کو ضرور مقدمہ دائر کرنا چاہیے۔
ہنگری نے طویل عرصے سےاس بات کا اعلان کر رکھا ہے کہ ڈبلن معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ تاہم ہنگری حکام سبوٹکا کے اس بیان پر فوری رد عمل کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ آسٹریا نے آغاز میں مشرق وسطی اور افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کوخوش آمدید کہا تھا۔ تاہم ویانا حکومت نے اس سال کے آغاز سے سیاسی پناہ کے قوانین کو سخت بنانا شروع کیا اور پناہ کی درخواستیں قبول کرنے کی سالانہ تعداد پر بھی حد مقرر کر دی۔ آسٹریا کو ان اقدامات پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور یورپی یونین کی طرف سے وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔